نستہ انٹرچینج سے لیکر چارسدہ روڈ تک علاقے کا انتخاب کرلیا گیا- دریائے سوات و دریائے کابل کے درمیانی علاقوں میں بحریہ ٹائون آباد کرنے سے سیلابوں میں نوشہرہ ڈوب جائیگا- آدھا چارسدہ بھی دریا برد ہونے کا خدشہ
نستہ انٹرچینج سے لیکر چارسدہ روڈ تک علاقے کا انتخاب کرلیا گیا- دریائے سوات و دریائے کابل کے درمیانی علاقوں میں بحریہ ٹائون آباد کرنے سے سیلابوں میں نوشہرہ ڈوب جائیگا- آدھا چارسدہ بھی دریا برد ہونے کا خدشہ

بحریہ ٹائون کا پشاور کے عوام سے اربوں بٹورنے کا منصوبہ

امت رپورٹ
بحریہ ٹائون نے کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں عوام سے اربوں روپے ہتھیانے کے بعد پشاور میں بحریہ ٹائون کے ذریعے اربوں روپے بٹورنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے بحریہ ٹائون کو نقشے، انتقالات، زمین کی پیمائش اور زمین کے نرخ وغیرہ جمع کرنے کے نوٹس دینے کے باوجود بحریہ ٹائون نے پشاورکے اندر مجوزہ منصوبے کے نادرن بائی پاس کے ساتھ پٹی کے حوالے سے پی ڈی اے کو کچھ بھی جمع نہیں کروایا۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ بحریہ ٹائون پشاور کیلئے نستہ انٹرچینج سے لے کر چارسدہ روڈ تک کے علاقے کا انتخاب کیا گیا ہے۔ تاکہ پی ڈی اے کی حدود سے باہر نکلا جائے اور چارسدہ، نوشہرہ کے میونسپل کارپوریشنز، ڈپٹی کمشنرز اور محکمہ مال کے ذریعے بحریہ ٹائون منصوبے کیلئے شاملات اور دیگر زمین حاصل کی جا سکے۔ ذرائع کے مطابق 2010ء کے سیلاب سے دریائے سوات میں ہونے والی طغیانی کے نتیجے میں جو علاقے دریا برد ہو گئے ہیں۔ ان علاقوں کو بحریہ ٹائون میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ حکومت نے آئندہ ممکنہ سیلاب سے چارسدہ اور نوشہرہ کو بچانے کیلئے ان زمینوں کی دوبارہ آبادکاری سے لوگوں کو روک دیا تھا۔ لیکن ان زمینوں کو بحریہ ٹائون منصوبہ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ دریائے سوات کو خیالی دریا کہا جاتا ہے۔ اس نے 2010ء میں نوشہرہ اور چارسدہ میں تباہی مچائی تھی۔ جس کے بعد اس دریا جو دریا ئے کابل سے ملتا ہے، نے پھر پنجاب میں تباہی مچائی۔ اس کی بنیادی وجہ سیلابی پانی کے لئے دریائوں کے کنارے عوام کی جانب سے قائم تجاوزات تھیں۔ ان تجاوزات کی وجہ سے دریا کے پانی کا بہائو رک گیا تھا اور دریا نے سامنے آنے والے گائوں بہا دیئے۔ جس سے دریائوں کی تہہ میں مٹی بھر گئی اور پانی شہروں میں داخل ہو گیا۔ جس سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا اور کئی سال پاکستان 2010ء کے سیلاب کی مشکلات سے باہر نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے دریائوں کے کناروں پر تجاوزات قائم کرنے سے لوگوں کو روک دیا۔ تاہم اب بحریہ ٹائون انتظامیہ دریائے کابل اور دریائے سوات کے اوپر چارسدہ اور نوشہرہ کے درمیان پشاور اور چارسدہ کی طرف بحریہ ٹائون منصوبہ بنانا چاہتی ہے۔ تاکہ نوشہرہ میں قائم ہونے والے چائنا ٹائون میں آنے والے چائنیز شہریوں کیلئے قریبی علاقوں میں ریسٹورنٹس اور پکنک پوائنٹس بنائے جائیں۔ چارسدہ اور نوشہرہ کے شہریوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر بحریہ ٹائون نے دریائے سوات اور دریائے کابل کے درمیان بحریہ ٹائون آباد کرنے کی کوشش کی تو آئندہ آنے والے سیلابوں میں نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ جبکہ آدھا چارسدہ بھی دریا برد ہو جائے گا۔ اس لئے حکومت بحریہ ٹائون کو ان علاقوں میں قائم کرنے سے روکے اور اس کے لئے کوئی اور علاقہ تجویز کرے۔ تاہم ابھی تک حکومت نے اس حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ اس سے قبل بحریہ ٹائون کی انتظامیہ کا یہ خیال تھا کہ پشاور کے اندر قائم ہونے والے ڈی ایچ اے کے قریبی علاقوں ریگی ماڈل ٹائون کے سامنے نادرن بائی پاس پر واقع زمین حاصل کی جائے اور یہاں سے بحریہ ٹائون کا آغاز کیا جائے۔ لیکن یہاں قبائلی تنازعات اور خاص کر ضلع خیبر کے قبائل اور حکومت کے درمیان گزشتہ تیس سال سے جاری چپقلش نے بحریہ ٹائون کے سرمایہ کاروں کو ڈرا دیا تھا کہ اس سے قبائلی جھگڑے شروع ہو جائیں گے اور اگلے فیزوں میں بحریہ ٹائون نے نادرن بائی پاس کے ساتھ پٹی پر بحریہ ٹائون قائم کرنے کی کوشش کی تو قبائلیوں، تہ کال کے اربابوں، خلیل برادری، دائود زئی سمیت دیگر علاقے کے پشتون قبیلوں کے درمیان خونریزی کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ پشاور بحریہ ٹائون کی فائلیں کراچی اور لاہور میں سرمایہ کاروں کو فروخت کی جا رہی ہیں۔ تاہم ڈیلرز کو نہ تو نقشوں کا پتہ ہے اور نہ ہی زمینوں کا۔ لہذا بحریہ ٹائون پشاور نہ صرف ایک ہوائی منصوبہ ہے۔ بلکہ دریائے سوات اور دریائے کابل کے درمیان واقع ہونے سے یہ منصوبہ سیلابوں کی زد میں بھی آسکتا ہے۔ اگرچہ کراچی، لاہور اور راولپنڈی کے بحریہ ٹائون میں عوام سے بڑے فراڈ کئے گئے۔ لیکن یہ زمین پشاور کے مقابلے میں کچھ نہ کچھ موجود تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ موٹر وے کے مغربی جانب اب بحریہ ٹائون کا فیز ون شروع کئے جانے کا امکان ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پی ڈی اے کی جانب سے بحریہ ٹائون کو غیر قانونی قرار دینے کے خدشے کے پیش نظر بحریہ ٹائون کی انتظامیہ نے یہ کام چارسدہ سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن جہاں فیز ون کا مجوزہ منصوبہ بنایا گیا ہے۔ وہاں پر شاملات کی زمین کے ساتھ ساتھ زرعی زمینیں ہیں اور اگر ان زرعی زمینوں کو بحریہ ٹائون میں شامل کرالیا گیا یا جس طرح کراچی اور دیگر علاقوں میں بحریہ ٹائون نے بعد میں کئی علاقے بحریہ ٹائون کے حصے بنائے تو خیبرپختون جو ہمیشہ پنجاب سے اپنی غذائی ضروریات پوری کرتا ہے اور کچھ نہ کچھ چارسدہ کے علاقوں سے ملتا ہے تو وہ زراعت ختم ہو جائے گی اور خیبرپختون کے عوام سبزیو ں کیلئے بھی محتاج ہو جائیں گے۔ اسی لئے بحریہ ٹائون کی انتظامیہ نے پشاور کے بجائے لاہور اور کراچی میں اس کی فائلیں فروخت کیلئے مارکیٹ کی ہیں۔ تاہم ذرائع کے مطابق خیبرپختون میں اس منصوبے سے لڑائی جھگڑوں کا خدشہ ہے۔ کیونکہ حال ہی میں پی ڈی اے نے کراچی کی ایک اور بڑی کمپنی کی مارکیٹنگ کے کئی منصوبوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ کیونکہ خیبرپختون میں نہ صرف زمینیں کم ہیں۔ بلکہ خیبرپختون کو زراعت کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ چائنا ٹائون نوشہرہ کے ایک ایسے علاقے میں بسایا گیا ہے۔ جو بنجر زمین تھی اور پشاور ماڈل ٹائون بھی حکومت ایک بنجر زمین پر بنا رہی ہے۔ کیونکہ پشاور شہر کو اس وقت شدید مسائل کا سامنا ہے۔ زرعی زمینوں پر پابندی ہونے اور شہریوں کو سبزی کے حصوں میں مشکلات کے باعث پشاور ماڈل ٹائون بھی بنجر زمین پر بسایا جارہا ہے۔ اسی طرح حکومت خیبرپختون کے تین سے چار بڑے منصوبے بھی بنجر زمینوں پر بنائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے رابطے پر محکمہ مال کے ایک آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ محکمہ مال کو ابھی تک کچھ معلوم نہیں کہ بحریہ ٹائون بنا رہے ہیں یا نہیں۔ تاہم محکمہ مال کے افسران میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ بحریہ ٹائون نے مختلف لوگوں کے نام پر زمینیں لی ہیں اور ان میں شاملات بھی شامل ہیں۔ تاہم شاملات پر خاندانوں کے درمیان لڑائیوں کا امکان ہے۔ کیونکہ شاملات میں تقریباً تیس سے چالیس فیصد حصہ حکومت کا ہوتا ہے۔ جبکہ باقی خاندانوں اور قبائل کا مشترکہ ہوتا ہے۔ لہذا صدیوں سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ شاملات ملکان کے حوالے کی جاتی ہے کہ ان کی روزی روٹی کا گزارا ہو اور وہ جرگوں کے ذریعے عوامی مسائل حل کریں۔ لیکن ان کی فروخت کا مرحلہ آجاتا ہے تو اس پر خونریزی کا خدشہ ہے۔ کیونکہ شاملات کوئی ایک شخص فروخت نہیں کر سکتا۔ افسر کے مطابق سرمایہ کاروں کو چاہیے کہ بحریہ ٹائون پشاور کے منصوبے سے دور رہیں۔ کیونکہ پشاور میں کراچی کی ایک اور بڑی کمپنی کی مارکیٹ کردہ کئی ہائوسنگ سوسائٹیاں جعلی نکلی ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگوں کے کروڑوں روپے ڈوب گئے ہیں۔ جس سے اغوا کے کیسز بھی بڑھ گئے ہیں کہ بعض لوگ اپنے سرمائے کے ڈوب جانے کے بعد سرمایہ کاروں کے رشتہ داروں اور بچوں کو اغوا کرتے ہیں اور اپنی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ افسر کے مطابق کراچی کی اس بڑی کمپنی کی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے حوالے سے بھی محکمہ مال نے پہلے ہی خبر دار کیا تھا کہ وہ سرمایہ کاری سے قبل محکمہ مال، پی ڈی اے اور متعلقہ اداروں سے تسلی کر لیں۔ یہی حال اب بحریہ ٹائون پشاور کا بھی ہے کہ افسران کے سرکل میں یہ بات کی جا رہی ہے کہ انہیں ٹیلی فون کالز آرہی ہیں کہ بحریہ ٹائون پشاور کے پلاٹ فروخت ہورہے ہیں۔ لیکن کہاں فروخت ہورہے ہیں، انہیں یہ معلوم نہیں۔ اب یہ بات سامنے آرہی ہے کہ یہ فائلز کراچی اور پشاور میں فروخت ہو رہی ہیں۔ حالانکہ زمین پر اس منصوبے کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ لہذا عوام اپنے کروڑوں روپے ڈبونے سے قبل زمینی حقائق جان لیں اور حکومت اور اداروں سے اس حوالے سے معلومات حاصل کریں۔