رپورٹ۔وجیہ احمد صدیقی
متحدہ عرب امارات نے اسرائیلی شہریوں کے تحفظ کی خاطر پاکستان پر وزٹ اور ورک ویزے پر پابندی عائد کی جبکہ اس پابندی کا شکارایران، ترکی اورافغانستان سمیت 13 مسلم ممالک بھی بنے ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے بظاہر دلیل یہ دی جارہی ہے کہ پاکستان میں کورونا کے بڑھتے کیسز کی وجہ سے پابندی لگائی گئی۔ تاہم پڑوسی ملک بھارت میں کورونا اپنے عروج پر ہے۔ لیکن بھارت کے لیے وزٹ اور ورک ویزے پر پابندی نہیں لگائی گئی۔
’’امت‘‘ نے متحدہ عرب امارات کے اسلام آباد میں سفارتخانے کے پریس اتاشی سے سوال پوچھا کہ پاکستانیوں کے لیے وزٹ اور ورک ویزا کیوں معطل کیا گیا ہے تو انہوں نے لائن کاٹ دی۔ واضح رہے کہ یو اے ای کی اس دوغلی پالیسی کا شکار پاکستان سمیت ترکی، ایران، یمن، شام، عراق، صومالیہ، لبیا، کینیا، افغانستان اور دیگر مملک بنے ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی شہریوں کو پاکستانی سفارت خانے نے ہدایت کی ہے کہ وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کا استعمال کرتے ہوئے غیر متعلقہ سرگرمیوں سے گریز کریں۔ یعنی متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر منفی تبصرہ نہ کریں۔
اس حوالے سے عسکری تجزیہ نگار لیفٹینٹ جنرل (ر) امجد شعیب سے ’’امت‘‘ نے گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ ’’پاکستان میں اسرائیل کے حوالے سے کافی جذباتی ردعمل پایا جاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کو یہ خوف ہے کہ کہیں کسی اسرائیلی کے خلاف کوئی دہشت گردی کا واقعہ نہ ہوجائے۔ پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایرانیوں کو بھی روک دیا ہے۔ اس وقت متحدہ عرب امارات میں اسرائیلی شہریوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
ایک سوال پر جنرل امجد شعیب نے کہا کہ ’’متحدہ عرب امارات نے انہی ملکوں پر پابندی لگائی ہے۔ جن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات یا تو اچھے نہیں یا پھر سفارتی تعلقات ہی نہیں۔ کورونا اس پابندی کی وجہ نہیں ہے۔ کیونکہ بھارت پاکستان سے زیادہ کورونا میں مبتلا ہے۔ لیکن اس کے چونکہ اسرائیل کے ساتھ دوستانہ سفارتی تعلقات ہیں۔ اس لیے بھارت پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ پاکستان کا معاملہ زیادہ حساس ہے۔ پاکستانیوں نے اپنے ردعمل کا اظہار بھی کیا ہے۔ جو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کو پسند نہیں آیا۔ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے کہا ہے کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر یہ پابندی لگائی گئی۔ اس پر ہماری حکومت ان سے سوال کر رہی ہے۔ لیکن وہ جواب نہیں دے رہے۔ نہ ہی اس بارے میں کوئی رابطہ کر رہے ہیں‘‘۔
عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے اس حوالے سے’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ پاکستان پر دبائو ڈالنے کی ترکیب ہے کہ پاکستان کسی طرح اسرائیل کو تسلیم کرلے۔ اس وقت سعودی عرب مسلم دنیا کی اقتصادی قوت ہے اور پاکستان مسلم دنیا کی ایٹمی قوت ہے۔ اگر یہ دونوں ملک اسرائیل کو تسلیم کرلیتے ہیں تو گریٹر اسرائیل کا مشن پورا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ جس دن پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا تو سعودیہ بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگائے گا۔
سعودی عرب تقریباً تیار ہے۔ ایم بی ٰٓص یعنی محمد بن سلمان کے گرد گھیرا تنگ ہے۔ جوبائیڈن اپنے عہدے کا حلف اٹھا نے سے پہلے محمد بن سلمان کو اپنا پیغام پہنچا چکے ہیں۔ 2017ء میں سعودی عرب کے خلاف ایران کی جانب سے خطرات بڑھے۔ اس کے بعد قطر اور سعودی عرب میں کشیدگی ہوئی تو امریکہ کے ساتھ مڈل ایسٹ کی سب سے بڑی ڈیفنس ڈیل ہوئی۔ اس کے نتیجے میں گریٹراسرائیل ایجنڈ ا سامنے آیا۔ مقصد یہ تھا کہ ان ممالک کو اقتصادی طور پر کمزرو کیا جائے۔ پاکستان پرہرطرف سے پریشر ہے۔
بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر حملے بڑھ گئے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ معاملات اطمینان بخش نہیں۔ پاکستان میں مبشر لقمان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے سب سے بڑے وکیل بن گئے ہیں اور بھی کئی اینکر اسی نقش قدم پر چل پڑے ہیں‘‘۔
یاد رہے کہ دسمبر 2019ء تک اسرائیل کے 193 اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں سے 162 کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔
بالترتیب 1979ء اور 1994ء میں امن معاہدوں پر دستخط کرنے کے بعد اسرائیل اپنے دو عرب ہمسایہ ممالک مصر اور اردن کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین ایک امن معاہدے کا اعلان 13 اگست 2020ء کو کیا گیا۔ جبکہ اقوام متحدہ کے اکتیس ممبر ممالک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ ان میں عرب لیگ کے 22 ممبران میں سے 19 الجیریا، بحرین، کوموروس، جبوتی، عراق، کویت، لبنان، لیبیا، موریطانیہ، مراکش، عمان، قطر، سعودیہ، صومالیہ، سوڈان، شام، تیونس اور یمن شامل ہیں۔
مزید 9 تنظیم اسلامی تعاون تنظیم کے ممبران ہیں۔ ان میں افغانستان، بنگلہ دیش، برونائی، انڈونیشیا، ایران، ملائیشیا، مالی، نائیجراور پاکستان ہیں۔ دوسرے ممالک جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان میں بھوٹان، کیوبا اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ اسرائیل اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کا رکن ہے۔