افغان حکومت ان مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوششیں کر رہی ہے۔فائل فوٹو
افغان حکومت ان مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوششیں کر رہی ہے۔فائل فوٹو

طالبان اورکابل حکومت کے درمیان مذاکراتی عمل شروع

رپورٹ:محمد قاسم
افغان طالبان اورافغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ جبکہ ایجنڈے کے بیشتر نکات پر بھی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ دونوں فریقین پُرامید ہیں کہ جنگ بندی کا معاہدہ بھی طے پاجائے گا۔ دوسری جانب امریکا نے افغان حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے کہ افغان حکومت ان مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوششیں کر رہی ہے۔
قطر میں طالبان کے دفتر کے ترجمان ڈاکٹر نعیم وردگ کے مطابق افغان حکومت اور طالبان وفد کے درمیان طریقہ کار پر اتفاق ہونے کے بعد بدھ کے روز سے مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے ہیں اور جنگ بندی کے علاوہ ایجنڈے کے کئی نکات پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ جنگ بندی پر طالبان کا موقف مختلف ہے۔ افغان حکومت علیحدہ سے معاہدہ کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ طالبان دوحہ معاہدے کے تحت آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ تاہم چونکہ افغان حکومت نے دوحہ معاہدے کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس لئے افغان قوم کو خوشخبری ملے گی۔

ڈاکٹر نعیم وردگ کے مطابق اگر اتفاق رائے ہو گیا تو جنگ بندی شروع ہو جائے گی۔ لیکن اس کے لئے جو شرائط ہیں، ان کو افغان حکومت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شریک حکومتی وفد کی رکن فوزیہ کوفی کے مطابق طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں ایجنڈے پر بات چیت شروع ہو گئی ہے اور امید ہے جنگ بندی پر بھی اتفاق ہو جائے گا۔ کیونکہ جنگ بندی کے بغیر افغانستان میں امن ممکن نہیں۔

دوسری جانب امریکا نے افغان حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے کہ افغان حکومت مذاکرات کے بجائے اقتدار کو بچانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ امریکا نے تجویز پیش کی ہے کہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کی قیادت میں ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کی جائے۔ امریکا کی آنے والی حکومت کا سابق صدر حامد کرزئی کے ساتھ قریبی تعلق رہا ہے۔ جبکہ افغان طالبان نے بھی کرزئی کی قیادت میں عبوری حکومت کے قیام پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔

ذرائع کے مطابق اس حوالے سے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ گزشتہ روز ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور استاد سیاف نے ملاقات بھی کی۔ تاہم وہ اشرف غنی کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔ ذرائع کے بقول افغان صدر عبوری حکومت کا خود سربراہ بننا چاہتے ہیں، اور یہ طالبان کو منظور نہیں۔ جبکہ امریکا چاہتا ہے کہ جلد از جلد افغانستان میں امن معاہدہ ہو جائے اور پچیس دسمبر، کرسمس سے قبل فوجیوں کے نکالنے کا جو منصوبہ ہے، اس پر عمل کیا جائے تاہم افغان حکومت کی جانب سے جو رویہ اپنایا جارہا ہے۔ اس سے امریکی فوج کی اس کرسمس پر واپسی نظر نہیں آرہی ہے۔ جبکہ اکتیس مئی 2021ء کو تمام امریکی فوجی افغانستان سے معاہدے کے تحت نکلنے کے پابند ہوں گے۔

طالبان ذرائع کے مطابق 15 نومبر کو افغان طالبان اور مخالف فریق کے درمیان بین الافغان مذاکرات کے طریقہ کار کے 21 نکات پر اتفاق قائم ہوا۔ طریقہ کار کو مکمل کرنے کے دو دن بعد قطر حکام کے سامنے جو سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں، پڑھ کر سنایا گیا اور دونوں ٹیموں کی منظوری کے بعد طریقہ کار کی ایک کاپی میزبان ملک کے حوالے کردی گئی۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مذاکرات کرنے والی دونوں ٹیمیں طریقہ کارپراتفاق کے بارے میں مشترکہ یا ہرایک علیحدہ علیحدہ بیان جاری کریں گی۔

ادھر کابل میں موجود ذرائع کے مطابق انٹرا افغان مذاکرات میں پیش رفت کے باوجود غنی حکومت نے افغان طالبان کے خلاف پروپیگنڈا تیز کر دیا ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اشرف غنی اپنے اس وعدے پر عمل پیرا ہیں، کہ وہ اگلے پانچ برسوں میں امن قائم کریں گے۔ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے معاہدے میں لکھا تھا کہ 10 مارچ سے بین الافغان مذاکرات شروع ہوں گے۔ افغان طالبان اسی تاریخ کو مذاکرات شروع کرنے کے لئے تیار تھے۔ لیکن اشرف غنی نے مختلف ذرائع اور بہانوں سے مذاکراتی عمل کو معطل کر دیا۔ 12 ستمبر کو بین الافغان مذاکرات کے افتتاح کے بعد فریق مخالف نے ایک بار پھر بہانے شروع کر دیے۔ کبھی ایک بات اور کبھی دوسری بات کی جاتی۔ آخر کار 15 نومبر کو دونوں مذاکراتی ٹیموں نے مذاکرات کے طریقہ کار پراتفاق کیا۔ لیکن فریق مخالف ایک بار پھر اپنے وعدے کی پاسداری کرنے میں ناکام رہا اور غیر معقول اورامن مخالف بیان بازی شروع کر دی۔

ایوان صدرکی کوشش ہے کہ وہ امن عمل میں تاخیر اور رکاوٹوں کی ذمہ داری سے خود کو بری الذمہ قرار دے۔ یہی سبب ہے کہ حکومت کے بعض ترجمانوں نے بین الافغان مذاکرات میں رکاوٹوں کی ذمہ داری بھی افغان طالبان پر عائد کر دی۔ تاہم ذرائع کے بقول حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان نے بین الافغان مذاکرات کے لئے ایک مضبوط اور اعلی سطح کی ٹیم مقرر کی ہے۔ جو افغان طالبان کی جانب سے امن مذاکرات کے لئے پرعزم ہونے کا ثبوت ہے۔ دوسرا یہ کہ افغان طالبان کو بخوبی علم ہے کہ فریق مخالف ٹیم مکمل طور بااختیار نہیں۔ لیکن اس لئے کہ امن عمل میں خلل نہ آئے اور اس راستے سے ایک مثبت نتیجے تک پہنچا جا سکے۔ اس لئے مخالف ٹیم کے ساتھ مذاکرات کرنے کیلئے طالبان آمادہ ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ایوان صدر اور غنی کی ٹیم اپنی کرسی کی بقا کے لئے بین الافغان مذاکرات میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے اور اس متزلزل حکمرانی کو برقرار رکھنے کیلئے افغانستان اور مظلوم افغان عوام کے مستقبل سے کھیل رہی ہے۔ افغان حکومت محض امن کی راہ میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مذاکرات اور امن کے اس اہم موقع کو ضائع کر رہی ہے۔