امت رپورٹ
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک الائنس نے احتجاجی پروگرام کا حتمی شیڈول اپنے اولین اجلاس میں ترتیب دے دیا تھا۔ جس میں لانگ مارچ اور استعفوں کو آخری آپشن کے طور پر رکھا گیا۔ طے ہوا تھا کہ لانگ مارچ جنوری کی کسی تاریخ کو کیا جائے گا۔ اب تک طے شدہ شیڈول کے مطابق ہی تحریک آگے بڑھ رہی ہے۔ جس کے تحت دوسرے مرحلے کا آخری جلسہ تیرہ دسمبرکولاہور میں ہونا ہے۔ لیکن اس جلسے سے پہلے آٹھ دسمبر کو اسلام آباد میں پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بلایا گیا ہے۔ جب تحریک کے آخری مرحلے کا شیڈول بھی طے کرلیا گیا تھا تو پھر آئندہ کا لائحہ عمل بنانے کے لئے سربراہی اجلاس بلانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔
اس بارے میں پی ڈی ایم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بدلتی صورتحال پروگرام میں رد و بدل کی متقاضی ہے۔ بالخصوص حال ہی میں ہونے والی ترقیوں اور تقرریوں نے اپوزیشن اتحاد کے قائدین کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ جو نومبر میں ہی کھیل ختم ہونے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ اور ان کا خیال تھا کہ آخری آپشن پر عمل کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ لیکن یہ نوبت آگئی ہے تو حتمی مرحلے پر عمل کی راہ میں موسم رکاوٹ بن رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق اب سوچا جا رہا ہے کہ جنوری میں لانگ مارچ اور دھرنے کے لئے اسلام آباد کا سخت موسم موافق نہیں رہے گا۔ لہٰذا اس مارچ کے پروگرام کو فروری کی آخری تاریخوں تک توسیع دے دی جائے۔ جب تک موسم قدرے قابل برداشت ہوچکا ہوگا۔ اس موقف کے حامی گزشتہ برس جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کا حوالہ بھی دے رہے ہیں۔ جب اس مارچ کے تحت اسلام آباد میں دیا جانے والا دھرنا تیرہویں روز ختم کر دیا گیا۔ اس دوران سردی اور بارش کے نتیجے میں دھرنے کے متعدد شرکا بیمار اور ان میں سے چند انتقال کرگئے تھے۔
ذرائع کے مطابق لانگ مارچ اور دھرنے کے پروگرام کو آگے بڑھانے کے حامیوں میں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سرفہرست ہیں اوران کا موقف ہے کہ جب نومبر کے وسط میں دھرنے کے شرکا اسلام آباد کا سرد موسم بڑی مشکل سے برداشت کر پائے تھے تو جنوری میں اس سے بھی سخت موسم ہوگا۔ ایسے سرد ترین موسم میں کھلے آسمان تلے دھرنا دینا آسان نہیں ہوگا۔ اور پھر یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ دھرنا کتنے دن دینا پڑے گا۔ ذرائع کے مطابق نون لیگ اور دیگر چند پارٹیوں کے رہنمائوں کی رائے ہے کہ لانگ مارچ اور دھرنا شیڈول کے مطابق جنوری میں ہی دینا چاہئے۔ یا اس کی تاریخ آگے بڑھانے کے بجائے پیچھے کر دی جائے۔ بالخصوص گزشتہ جلسے کے موقع پر حکومتی کریک ڈائون پر برہم ملتان میں موجود رہنمائوں نے تو لاہور جلسے کے بعد دسمبر کے وسط میں ہی فیصلہ کن لانگ مارچ پر اصرار کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کے حوالے سے مختلف آرا کو پیش نظر رکھ کر ہی آٹھ دسمبر کو پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ تاکہ تمام اپوزیشن پارٹیوں کی مرکزی قیادت کی مشاورت سے کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے۔
اس بارے میں جب جمعیت علمائے اسلام کے ایک رہنما سے استفسار کیا گیا کہ پی ڈی ایم کے اولین اجلاس میں تحریک کے حتمی شیڈول کا اعلان کرتے وقت کیا قائدین کے ذہن میں جنوری کا سرد موسم نہیں تھا؟ اس پر جے یو آئی رہنما کا کہنا تھا کہ سب کو ہی معلوم ہے کہ جنوری کا مہینہ اسلام آباد میں دھرنے کے لئے موزوں نہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ قائدین کو یقین تھا کہ نومبر کے آخر تک وہ اپنے مقاصد حاصل کرلیں گے۔ لہٰذا جنوری میں شیڈول آخری آپشنز استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں پڑے گی۔ اس یقین کی بنیاد پس پردہ ملنے والے اشارے تھے۔ تاہم نومبر گزر گیا اور اس سے پہلے تقرریاں، ترقیاں اور تبادلے بھی ہوگئے۔ اب اپوزیشن اتحاد کے لئے نئی صورت حال پیدا ہو چکی ہے کہ سارے معاملات نئے سرے سے چلانے پڑیں گے۔
مذکورہ رہنما نے دعویٰ کیا کہ قریباً ایک ہفتہ قبل مولانا فضل الرحمن سے بلاول ہائوس کراچی میں ہونے والی ملاقات کے موقع پر آصف زرداری نے بھی جے یو آئی کے امیر سے کہا کہ اب کوئی اور راستہ نکالا جائے۔ صرف جلسوں اور ریلیوں پر اکتفا نہ کیا جائے۔ جے یو آئی رہنما کے مطابق اس لحاظ سے آٹھ نومبر کو پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بہت اہم ہے۔ اس اجلاس میں ہی لانگ مارچ اور دھرنے کے شیڈول میں رد و بدل سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ آیا پرانے شیڈول کے مطابق آزادی مارچ کا پروگرام جنوری میں برقرار رکھا جائے۔ تاریخ سے پہلے شروع کر دیا جائے یا پھر اسے فروری کی آخری تاریخوں تک لے جایا جائے۔ اگر لانگ مارچ کو آگے بڑھایا جاتا ہے تو پھر اس گیپ کو دیگر شہروں میں مزید جلسے اور ریلیوں سے بھرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ فیصلہ کن مرحلہ پانچ مارچ کے سینیٹ الیکشن سے پہلے شروع کر دیا جائے۔
پی ڈی ایم کے ایک اور رہنما کے مطابق پیرول پر رہا ہونے والے نون لیگ کے صدر شہباز شریف نے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ شروع کرنے سے متعلق اپنا پرانا بیانیہ دوہرا کر پی ڈی ایم قیادت کو پریشان کیا ہے۔ جو جلسے جلوسوں کے ذریعے دبائو بڑھاکر کسی اور کی طرف سے اس پیشکش کی خواہشمند ہے۔ مذکورہ رہنما کے بقول شہباز شریف کے اس بیان کو کائونٹر کرنے کے لئے مولانا فضل الرحمن کو یہ بیان دینا پڑا کہ پی ڈی ایم قیادت فی الحال کسی سے بات چیت نہیں کرنا چاہتی۔
اپوزیشن تحریک کی حکمت عملی پر نالاں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد کہتے ہیں ’’میری اصولی باتوں پر ہی بعض لوگوں کو شکوہ ہے۔ میں نے تجویز دی تھی کہ پی ڈی ایم میں شامل تمام پارٹیوں کے ارکان پارلیمنٹ اپنے استعفے اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے پاس جمع کرا دیں۔ اور جب بھی استعفے دینے کا حتمی فیصلہ ہوجائے تو یہ استعفے مشترکہ طور پر جمع کرادیے جائیں‘‘۔
حافظ حسین احمدکے بقول وہ اب بھی کہتے ہیں کہ جو گانٹھ ہاتھوں سے کھل جائے۔ اسے دانتوں سے کھولنے کی کیا ضرورت ہے۔ لہٰذا سرد موسم میں دھرنا کا آپشن اگر قابل عمل نہیں اور اپوزیشن اتحاد واقعی حکومت گرانے میں سنجیدہ ہے تو پھرلانگ مارچ کے مشکل راستے کے بجائے چاروں صوبائی اسمبلیوں، گلگت بلتستان اورآزاد کشمیرکی قانون ساز اسمبلیوں، سینیٹ اورقومی اسمبلی سے اپوزیشن اجتماعی استعفے دے کرایک گھنٹے میں حکومت کیوں نہیں گرا دیتی۔ واضح رہے کہ سخت بیانات دینے پرحافظ حسین احمد کو بطور ترجمان جمعیت علمائے اسلام، ہٹایا جا چکا ہے۔ یہ فیصلہ جے یوآئی کی مجلس شوریٰ نے کیا تھا۔