امت رپورٹ
جہاں ایک طرف بیروزگار کئے جانے والے اسٹیل ملز ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔ وہیں سب کی نظریں اس بڑے صنعتی ادارے کی بیش قیمت اراضی پر لگی ہوئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے درمیان اسٹیل مل کی ہزاروں ایکڑ اراضی کی ملکیت کے معاملے پر ایک بار پھر تنازع کھڑے ہونے کا امکان ہے۔
اسٹیل مل اٹھارہ ہزار چھ سو ساٹھ ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ جس میں دس ہزار تین سو نوے ایکڑ پر مرکزی پلانٹ ہے۔ آٹھ ہزار ایک سو چھبیس ایکڑ اراضی ملازمین کی رہائش کے لئے ہے۔ اس میں اسٹیل ٹائون شپ اور گلشن حدید شامل ہے۔ جبکہ تقریباً دو سو ایکڑ اراضی پر ایک سو ساٹھ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے واٹر ریزروائر ہے۔
اسٹیل ٹائون میں ایک درجن سے زائد تعلیمی ادارے واقع ہیں۔ کالونی میں کرکٹ اور ہاکی اسٹیڈیم کے علاوہ ایک تھری اسٹار ہوٹل بھی ہے۔ سن دو ہزار چھ میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے لئے انجینئرنگ اور ٹیکنیکل یونیورسٹیاں قائم کرنے کے لئے تیرہ سو ایکڑ سے زائد اراضی لی گئی تھی۔ اسی طرح پاکستان اسٹیل انتظامیہ نے بن قاسم انڈسٹریل پارک قائم کرنے کے لئے وفاقی حکومت کو نو سو ایکڑ سے زائد اراضی بھی دی تھی۔
رواں برس جون میں جب اسٹیل مل کی مجوزہ نجکاری کا پلان بنا تھا تو سندھ حکومت اور وفاق آمنے سامنے آگئے تھے۔ صوبائی حکومت کا دعویٰ تھا کہ اسٹیل ملزکی اراضی اس کی ملکیت ہے۔ اور یہ کہ وفاقی حکومت اس اراضی کو ملز کی نجکاری کا حصہ نہیں بنا سکتی۔ پاکستان اسٹیل مل کے ایک سینئر افسرکے بقول حکومت سندھ کے اس دعوے کے پیچھے اسٹیل مل لگاتے وقت کیا جانے والا پہلا ایگریمنٹ ہے۔
جولائی انیس سو تہتر میں بھٹو دور میں کئے جانے والے معاہدے میں یہ شامل تھا کہ اسٹیل مل کی اراضی کسی اور مقصد کے لئے استعمال نہیں کی جا سکے گی۔ مستقبل میں کبھی اسٹیل مل کو بند کیا گیا تو اس کی اراضی پر سندھ حکومت کا حق ہوگا۔ سینئر افسر کہتے ہیں ’’یہ معاہدہ اب تک موجود ہے۔ اس وقت چونکہ ملک دو لخت ہو چکا تھا اور زخم ابھی تازہ تھا۔ جبکہ حکومت بھی پیپلزپارٹی کی تھی۔ لہٰذا کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ جو ہو رہا تھا، ہونے دیا۔ کیونکہ ملک کو یکجہتی کی ضرورت ہے۔ تاہم بعد میں بھی اس ایگریمنٹ کو کسی نے تبدیل نہیں کیا۔ سندھ حکومت اس ایگریمنٹ کا ایڈوانٹج لے کراب یہ اراضی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ تاکہ بعد میں پرائیویٹ پارٹیوں کو الاٹ کرکے اربوں روپے کمائے۔
دوسری جانب وفاقی حکومت کی خواہش ہے کہ نہ صرف اسٹیل مل کی قیمتی اراضی اس کے ہاتھ لگ جائے۔ بلکہ کروڑوں روپے کے اثاثے بھی اسے مل جائیں۔ اور وہ اسے اپنے کسی چہیتے سرمایہ دار کے حوالے کردے۔ جیسا کہ رزاق دائود کی کمپنی کو ڈیم کا ٹھیکہ دیا گیا ہے۔ تمام ملازمین کو فارغ کئے جانے کے بعد صوبائی اور وفاقی حکومت کی یہ کشمکش کھل کر سامنے آجائے گی‘‘۔ دوسری جانب اسٹیل مل انتظامیہ کا موقف ہے کہ یہ ساری اراضی اس کی واحد ملکیت ہے۔ کیونکہ اسٹیل مل نے یہ زمین حکومت سندھ اور پرائیویٹ پارٹیوں سے خریدی تھی۔ اس میں سات ہزار ایکڑ کے قریب اراضی حکومت سندھ اور گیارہ سو ایکڑ سے زائد زمین مقامی لوگوں سے خریدی گئی تھی۔
اسٹیل مل کے پروڈکشن شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک ذمہ دار نے، جسے ابھی برخاستگی کا پروانہ نہیں ملا ہے، بتایا کہ اس وقت بھی اسٹیل مل میں تقریباً سات ارب روپے مالیت کا تیار مال پڑا ہے۔ جبکہ اٹھارہ ریلوے انجن، ایک بڑا اسپتال، ایک سو ساٹھ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی استعداد رکھنے والا پلانٹ اور واٹر ریزروائر موجود ہے۔ یعنی اربوں روپے کے تیار شدہ مال کے علاوہ کروڑوں روپے کے اثاثے الگ ہیں۔ لیکن سب سے قیمتی چیز اراضی ہے۔
ذمے دارکے بقول اس اراضی پر صوبائی و وفاقی حکومتوں کے علاوہ بعض سرکاری اداروں کی نظریں تو اپنی جگہ، قبضہ گروپ بھی ہمیشہ اس کی تاک میں رہے۔ دو ہزار چھ میں جب انتہائی کم قیمت پر اسٹیل مل کی نجکاری کی گئی تو اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قبضہ گروپوں نے بھی اپنا کام دکھانا شروع کر دیا تھا۔ ان میں سندھ کی حکمراں پارٹی سے جڑا ایک معروف نام شامل ہے۔ جو بعد میں دبئی فرار ہوگیا اور اب تک واپس نہیں آیا۔ اس نے گلشن حدید فیز فورکے ساتھ پڑی اسٹیل مل کی چار سو ایکڑ سے زائد اراضی پر قبضہ کر کے رہائشی کالونی بنانی شروع کر دی تھی۔ سینکڑوں لوگوں کو پلاٹ الاٹ کردیئے گئے تھے۔ تاہم جب سپریم کورٹ نے نجکاری منسوخ کی تو پاکستان اسٹیل مل کی انتظامیہ اس قبضے کے خلاف ہائیکورٹ چلی گئی تھی۔ یوں یہ سلسلہ رکا۔ عدالت کی مداخلت پر اراضی کا ایک بڑا حصہ واپس اسٹیل مل کو مل گیا۔ کچھ اراضی کے حوالے سے اب بھی عدالت میں کیس چل رہے ہیں۔ اس اراضی پر بہت سے لوگوں نے مکانات بنالئے تھے۔ جو اب بھی موجود ہیں۔
اسٹیل مل کے ذمے دار نے بتایا کہ نون لیگ کے دور حکومت میں وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان اسٹیل مل کی کئی ہزار ایکڑ اراضی سی پیک منصوبے میں شامل کی تھی۔ یہ اراضی ستّر سے نوے لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے مختص کی جا رہی تھی۔ اگرچہ اس وقت مارکیٹ ریٹ تقریباً ساڑھے تین کروڑ روپے فی ایکڑ تھا۔ تاہم نون لیگ کی حکومت جانے کے بعد تاحال اس پر عمل نہیں ہوسکا ہے۔ پاکستان اسٹیل مل کے ذمہ دار نے دعویٰ کیا کہ ملازمین کو فارغ کرکے پاکستان اسٹیل مل کو اپنی مکمل تحویل میں لینے کے بعد وفاقی حکومت قریباً دو ہزار ایکڑ اراضی ’’نیا پاکستان اسکیم‘‘ کے لئے مختص کرنا چاہتی ہے۔
ادھر بظاہر سندھ حکومت برطرف ملازمین کے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم اسٹیل مل سے وابستہ بیشتر لیبر یونین رہنمائوں کا خیال ہے کہ کسی کو بھی ملازمین کے بیروزگار اور دربدر ہونے سے غرض نہیں۔ پیپلز پارٹی اس انتظار میں ہے کہ کب اسٹیل مل بند کرنے کا باقاعدہ اعلان ہوتا ہے یا اسے کسی پرائیویٹ ادارے کے حوالے کیا جاتا ہے تو وہ اربوں روپے مالیت کی اراضی پر اپنا حق ملکیت جتاکر اسے حاصل کرلے۔ جبکہ وفاقی حکومت کی نظر نہ صرف قیمتی زمین بلکہ اربوں روپے مالیت کے اثاثوں پر بھی ہے۔ ان لیبر یونین رہنمائوں کے مطابق اگرچہ وفاقی حکومت اسٹیل مل کی بحالی کا جھانسہ دے رہی ہے۔ تاکہ اچھی قیمت پر اس کی نجکاری کردی جائے۔ تاہم ساتھ ہی اسٹیل مل مینجمنٹ نے لیبر کورٹ میں اپیل کردی ہے کہ اس نے ملازمین کو فارغ کرنا ہے۔ لہٰذا اس کی اجازت دی جائے۔
اسٹینڈنگ آرڈر کی ایک شق کے مطابق اگر کوئی ادارہ یا پلانٹ بند کیا جارہا ہو تو اس کے ملازمین کو فارغ کرنے کے لئے لیبر کورٹ سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ سات دسمبر کو اس کیس کی سماعت ہے۔ مزدور رہنمائوں کے بقول لیبر کورٹ کی منظوری حاصل ہوتے ہی باقی ماندہ ملازمین کو بھی (Lay off) فارغ کر دیا جائے گا۔ اگر واقعی حکومت اسٹیل مل کو بحال کرنا چاہتی ہے تو پھر مینجمنٹ لیبر کورٹ کیوں گئی؟
صوبائی حکومت کی جانب سے احتجاجی مظاہرین کو کرائی جانے والی یقین دہانی کے حوالے سے ایک مزدور رہنما کہتے ہیں ’’ہم سمجھ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو اصل دلچسپی اسٹیل مل کی اراضی میں ہے۔ لیکن ہمارے پاس ان کی بات پر یقین کرنے کےعلاوہ کوئی اور راستہ نہیں کہ شاید یہ وفاقی حکومت پر دبائو ڈال کر ہمیں ریلیف دلادیں۔ مطالبات منظور ہونے کی یقین دہانی کراتے ہوئے صوبائی وزیر سعید غنی نے بدھ کے روز یونین رہنمائوں کے ساتھ پریس کانفرنس کا اعلان کیا تھا۔ یہ پریس کانفرنس بوجوہ ملتوی کر دی گئی۔ تاہم جمعرات کو صوبائی وزیر نے ایک چار رکنی کمیٹی کا اعلان کیا ہے۔ جو اس معاملے پر وفاق سے بات کرے گی۔ آل ایمپلائیز ایکشن کمیٹی انتظار کرے گی کہ صوبائی حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ چار رکنی کمیٹی ملازمین کے لئے کیا کردار ادا کرتی ہے۔ بصورت دیگر احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا‘‘۔