امت رپورٹ
سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے انتقال سے نون لیگ کو دھچکا پہنچا ہے، جو ویڈیو اسکینڈل کیس کی بنیاد پر سابق وزیر اعظم کو اس ریفرنس میں سنائی جانے والی سزا کالعدم کرانے کی جستجو میں ہے۔ واضح رہے کہ ویڈیو اسکینڈل کے دونوں مرکزی کردار ناصر بٹ اور ناصر جنجوعہ اس وقت لندن میں ہیں اور نواز شریف کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ دوسری جانب نواز شریف نے دوبارہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔ اور ایک ہفتے کے اندر وہ تین تقاریر کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک تقریر کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
لندن میں موجود لیگی ذرائع نے’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ سابق جج ارشد ملک کے اچانک انتقال کے بعد ویڈیو اسکینڈل کیس کو لے کر پیدا ہونے والی صورتحال پر ناصر بٹ اور نواز شریف کے درمیان یہ معاملہ ڈسکس ہوا ہے۔
اس بات پر تشویش کا اظہارکیا گیا کہ ایک ایسے موقع پر جب سابق جج کی اعترافی ویڈیو عدالت میں بطور ثبوت پیش کرنے کی تیاری کی جارہی تھی، کیس کا اہم کردار دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس سے قبل عدالت کی طرف سے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو اشتہاری مجرم قرار دیا جانا بھی نون لیگ کے لئے ایک بڑا جھٹکا تھا۔
ذرائع کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان ریفرنسوں کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت کے دوران نون لیگ نے ارشد ملک کی اعترافی ویڈیو اور فرانزک رپورٹ پیش کرنی تھی ۔ نو دسمبر کی سماعت کے موقع پر اس فیصلے پر عمل کیا جانا تھا۔ تاہم اس سے چار روز قبل سابق جج ارشد ملک کی اچانک موت کے سبب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے۔ اب اعترافی ویڈیو عدالت میں پیش کی جاتی ہے تو اس حوالے سے دوسرے فریق پر جرح نہیں کی جاسکے گی۔ کیونکہ اب وہ دنیا میں موجود نہیں۔ اس سے کیس کمزور ہوسکتا ہے۔
ذرائع کے بقول نواز شریف نے پاکستان میں اپنی قانونی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ ویڈیو اسکینڈل کیس پر ارشد ملک کی وفات سے پیدا ہونے والے اثرات کے قانونی پہلوئوں کے بارے میں انہیں آگاہ کریں اور موجودہ صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیس کی تیاری کریں۔ اس کیس میں ناصر بٹ بھی فریق ہیں۔ انہوں نے گزشتہ برس اپنے وکیل ناصر بھٹہ کے توسط سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دی تھی کہ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کے خلاف وہ کچھ شواہد عدالت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن ان شواہد کی تصدیق کرنے سے انکاری ہے۔
ذرائع کے مطابق قانونی ٹیم سے طویل مشاورت کے بعد نو دسمبر کی سماعت میں ارشد ملک کی اعترافی ویڈیو، فرانزک رپورٹ کے ساتھ عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تاہم ارشد ملک کی اچانک موت کے سبب اب پاکستان میں نون لیگی قانونی ٹیم سے پوچھا گیا ہے کہ نئی صورتحال میں ویڈیو اور فرانزک رپورٹ عدالت میں پیش کی جانی چاہئے یا اس عمل کو فی الحال موخر کردیا جائے۔ لندن میں موجود لیگی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ویڈیو اسکینڈل کے حوالے سے ان کا کیس اس لئے مضبوط ہوگیا تھا کہ سابق جج ارشد ملک نے نون لیگی قیادت کے خلاف عدالت میں اپنا جو بیان حلفی جمع کرایا ، اسے وہ ثابت کرنے میں ناکام رہے تھے۔
ارشد ملک نے اپنے بیان حلفی میں کہا تھا کہ حسین نواز کی جانب سے انہیں پانچ سو ملین روپے کے ساتھ پورے خاندان کی برطانیہ یا کینیڈا میں رہائش، بزنس اور بچوں کو نوکریاں فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ اس پیشکش کو قبول کرنے کے عوض انہیں یہ کہہ کر استعفیٰ دینے کا کہا گیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کے کیسز کا فیصلہ میرٹ پر نہیں بلکہ خوف اور دبائو میں کیا تھا۔
ساتھ ہی ارشد ملک نے اپنے بیان حلفی میں یہ بھی کہا تھا کہ نواز شریف کے ساتھی میاں طارق نے انہیں ایک غیر اخلاقی ویڈیو دکھائی جو ان کی لاعلمی میں بنائی گئی تھی۔ اس ویڈیو کو استعمال کرکے انہیں بار بار بلیک میل کیا گیا۔ تاہم ایک انکوائری رپورٹ میں ارشد ملک کے اس بیان حلفی میں کئے جانے والے دعوئوں کو مسترد کردیا گیا تھا۔ اور یہ انکوائری رپورٹ ہی جج ارشد ملک کی برطرفی کا سبب بنی۔ لاہور ہائیکورٹ کی سات رکنی ایڈمنسٹریشن کمیٹی نے کہا تھا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ارشد ملک کو نواز شریف کے حامیوں کی طرف سے موت، جسمانی نقصان پہنچانے یا کسی اور قسم کے دبائو کا سامنا تھا۔
لیگی ذرائع کہتے ہیں کہ انکوائری کمیٹی کی جانب سے جج ارشد ملک کے بیان حلفی کو جھوٹ قرار دینا اور پھر ان کی برطرفی نواز شریف کی بڑی کامیابی تھی۔ پارٹی وکلا نے بتایا تھا کہ ویڈیو اسکینڈل کیس میں اب ان کی پوزیشن مضبوط ہوگئی ہے۔ لہٰذا اب ناصر بٹ کے سامنے اعتراف سے متعلق ارشد ملک کی ویڈیو کو عدالت میں بطور ثبوت پیش کرکے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کالعدم کرانے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں جس میں ارشد ملک یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ انہوں نے سابق وزیراعظم کو دبائو کے تحت سزا سنائی تھی۔
ذرائع کے بقول ارشد ملک کی موت نے نون لیگ کی جانب سے سابق جج کے ’’خطرناک‘‘ اعترافات سے متعلق ایک اور ویڈیو منظر عام پر لانے کے پروگرام کو بھی متاثر کیا ہے۔ پارٹی وکلا نے فی الحال ایسا کوئی قدم نہ اٹھانے کا مشورہ دیا ہے کہ اس سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
دوسری جانب ویڈیو اسکینڈل کے ایک اہم کردار ناصر بٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف کو دبائو کے تحت سزا سنانے کا اعتراف کئے جانے کے بعد سے سابق جج ارشد ملک پر پی ٹی آئی حکومت کا بے حد دبائو تھا اور یہ کہ ارشد ملک اب بھی اس کے ساتھ رابطے میں تھے۔ اور نواز شریف کے خلاف سازش میں ملوث مزید کرداروں کے نام افشا کرنا چاہتے تھے۔
ناصر بٹ نے سابق جج ارشد ملک کے انتقال کو طبعی موت تسلیم کرنے سے بھی انکار کیا ہے۔ تاہم ارشد ملک کے صاحبزادے یہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ان کے والد نمونیہ میں مبتلا تھے ۔ پچھلے کئی روز سے اسلام آباد کے شفا اسپتال میں داخل تھے اور یہ کہ ان کی موت ہارٹ اٹیک سے واقع ہوئی۔
ادھر لندن میں نواز شریف نے دوبارہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔
واضح رہے کہ اپنی والدہ کے انتقال کے بعد نواز شریف نے پاکستان میں پارٹی اجلاسوں سے خطاب اور دیگر سیاسی سرگرمیوں میں وقفہ لیا تھا۔
لندن میں موجود شریف فیملی کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف کی سیاسی سرگرمیوں میں وقفے کا ایک سبب والدہ کی موت اور دوسری وجہ کورونا کے باعث لندن میں لگایا جانے والا لاک ڈائون تھا۔ دو دسمبرکو لاک ڈائون میں نرمی کے بعد پہلی بار جمعہ کے روز نواز شریف اپنے عارضی سیاسی ہیڈ کوارٹر، حسن نواز کے دفتر میں پہنچے۔ چونکہ لندن میں اب بھی چھ افراد سے زائد لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی ہے، لہٰذا دفتر میں نواز شریف کے ساتھ ان کے دونوں بیٹے حسن اور حسین نواز کے علاوہ اسحاق ڈار اور پارٹی کے دو تین لوگ تھے۔
اس موقع پر نواز شریف نے اپنے ایک خطاب کے مسودے کو آخری شکل دی۔ اس کام میں اسحاق ڈار نے ان کی معاونت کی۔ ذرائع کے بقول نواز شریف آج (اتوار) لاہور میں ہونے والے نون لیگ کے سوشل میڈیا ورکرز اجلاس سے خطاب کریں گے۔ اس موقع پر مریم نواز بھی موجود ہوں گی۔
یہ اجلاس جوہر ٹائون لاہور میں واقع کھوکھر پیلس میں ہورہا ہے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف آٹھ دسمبرکو اسلام آباد میں ہونے والے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں بھی شریک ہوں گے۔ جبکہ تیرہ دسمبر کو لاہور میں پی ڈی ایم جلسے سے خطاب کریں گے۔ اس طرح ایک ہفتے کے دوران نواز شریف نے تین تقاریر کی تیاری کی ہے۔ ان میں سے ایک فائنل ہوچکی ہے۔ ایک آخری مراحل میں ہے جبکہ جلسے سے کیے جانے والے خطاب کے مسودے پر ایک دو روز میں کام شروع ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بالخصوص تیرہ دسمبر کے جلسے میں نواز شریف طویل خطاب کرنا چاہتے ہیں۔ جس میں وہ آٹھ دسمبر کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کی تائید بھی کریں گے۔