ذیلی:  تدفین کے وقت معتقدین زار و قطار روتے رہے- علمائے کرام نے ملت کا عظیم نقصان قرار دیدیا
ذیلی:  تدفین کے وقت معتقدین زار و قطار روتے رہے- علمائے کرام نے ملت کا عظیم نقصان قرار دیدیا

مفتی زرولیؒ کی نمازہ جنازہ کیلیے وسیع میدان چھوٹا پڑگیا

عظمت خان/ اقبال اعوان
مولانا مفتی محمد زر ولی خانؒ کی نماز جنازہ کیلیے جامعہ عربیہ سے متصل وسیع و عریض ناصر حسین فیملی پارک عیدہ گاہ گرائونڈ چھوٹا پڑگیا۔ نماز جنازہ میں شرکت کیلیے شہر بھر کے مدارس کے اساتذہ اور طلبا، علمائے کرام، سیاسی مذہبی جماعتوں کے رہنما اور عام شہری نماز فجر کے بعد ہی آنا شروع ہو گئے تھے تاکہ نماز جنازہ سے قبل مفتی زرولی خان کا آخری دیدار کر سکیں۔

صبح گیارہ بجے جب نمازہ جنازہ ادا کی جا رہی تھی تو عیدگاہ گرائونڈ کے اطراف تمام سڑکیں اورگلیاں بھر چکی تھیں۔ نماز جنازہ مرحوم کے بیٹے مولانا انور شاہ نے پڑھائی۔ بعد ازاں تدفین جامعہ احسن العلوم کی شاخ احسن المدارس احسن آباد میں کی گئی۔ اس موقع پر ہزاروں معتقدین زار و قطار روتے رہے۔ دوسری جانب جید علمائے کرام نے مولانا مفتی زر ولی خانؒ کی رحلت کو ملت کیلئے عظیم سانحہ قرار دیا ہے۔

جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال کے مہتمم مفسر قرآن و محدث مفتی زر ولی خانؒ کی نماز جنازہ سے قبل ہی گلشن اقبال میں بڑی تعداد میں لوگ پہنچ چکے تھے۔ نماز جنازہ جامعہ احسن العلوم کے قریب واقع عیدگاہ گرائونڈ میں ادا کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ اطراف میں گاڑیوں کو پارک کرنے کیلئے دور دور تک نشانات لگائے گئے تھے۔ اس وجہ سے جامعہ احسن العلوم کی قریبی گلیوں میں اہل علاقہ نے اپنی گاڑیاں پارک نہیں کی تھیں بلکہ آنے والی گاڑیوں کیلئے جگہ چھوڑ دی تھی۔

گلشن اقبال بلاک ٹو کے اس وسیع و عریض پارک میں مفتی زر ولی خانؒ کے عقیدت مندوں کی بڑی تعداد جنازہ میں شریک ہونے کے لئے جمع ہوئی۔ گرائونڈ میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے اطراف کی سڑکوں اور گلیوں میں بھی نماز جنازہ کیلئے صفیں بنائی گئیں۔

جنازہ میں آنے والے افراد نے اپنی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں عید گاہ گرائونڈ سے قدرے دور کھڑی کی تھیں اور پیدل چل کر جنازہ گاہ تک پہنچے۔ اس دوران مختلف قریبی گلیوں میں رہائش پذیرافراد نے شرکا کو پانی کی بوتلیں فراہم کیں۔ پولیس کی بھاری نفری اطراف کی گلیوں میں موجود رہی تاہم مجمع کو منظم رکھنے، صفیں بنوانے اور میت کی گاڑی کو راستے دینے کیلیے مدرسہ کے طلبا ہی رضاکارانہ طور پر خدمت انجام دے رہے تھے۔
مفتی زر ولی خانؒ کے نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں علمائے کرام شریک ہوئے۔ ان میں جمعیت علمائے اسلام مانسہرہ سے مفتی کفایت اللہ، اہلسنت والجماعت سے مولانا اورنگزیب فاروقی، جامعہ صدیقہ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر منظور احمد مینگل، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان، جمعیت علمائے اسلام گلگت کے رہنما مولانا قاضی نثار احمد، وفاق المدارس سندھ کے ناظم اعلیٰ مولانا امداد اللہ یوسف زئی، مولانا قاری حق نواز، مولانا عبدالرزاق زاہد، جامعہ دار العلوم کورنگی کے استاد حدیث مولانا مولانا راحت علی ہاشمی، مفتی اکرام الرحمان، مولانا ابراہیم سکرگاہی، مولانا منظور احمد، مولانا عبیدالرحمان چترالی، مولانا الطاف الرحمان، مولانا ڈاکٹر سعید خان اسکندر، جے یو آئی کے رہنما مولانا راشد محمود سومرو، اہلسنت و الجماعت کے رہنما مولانا رب نواز حنفی، جامعہ بنوریہ کے مہتمم مفتی نعمان نعیم، جامعہ اشرف المدارس کے مولانا ابراہیم مظہر، دارالعلوم الصفہ کے مولانا مفتی محمد زبیر حق نواز، جامعہ فاروقیہ کے مفتی انس عادل، مفتی عمیر عادل، کراچی علما کمیٹی کے مولانا اقبال اللہ، مولانا قاسم عبداللہ، مولانا حماد مدنی، مولانا احمد یار خان، مولانا قاسم محمود، جامعہ خدیجۃ الکبری للبنات کے مہتمم مولانا دائود خان اور مولانا ادریس ربانی سمیت شہر بھر کے جامعات و مدارس جامعہ بنوری ٹاؤن، جامعہ دارالعلوم کراچی، جامعۃ الرشید، جامعہ فاروقیہ، جامعہ اشرف المدارس سمیت دیگر مدارس کے مہتممین و منتظمین اور سماجی شخصیات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ جبکہ مفتی زر ولی خانؒ کی نماز جنازہ کے شرکا میں ان کے ہزاروں شاگردوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے شہری بھی شامل تھے۔

مفتی زر ولی خانؒ کی دینی و علمی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے مذہبی اسکالر مولانا جہاں یعقوب نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ مفتی زر ولی خانؒ شاعر بھی تھے۔ انہیں ہزاروں عربی، فارسی اور پشتو کے شعر زبانی یاد تھے۔ جب وہ بھی استشہاد کرتے تو عربی، فارسی یا پشتو کا شعر لازمی سناتے۔ دلیل کے ساتھ بعض مسائل میں ان کے تفردات، اہل علم کو سوچنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ وہ توحید کے داعی تھے۔ معتقدات کا کھلم کھلا اظہار کرتے تھے۔ قدیم و جدید تفاسیر کا ضخیم ذخیرہ ان کے قرآنی ذوق کا ترجمان ہے۔ وہ ڈھائی ماہ میں پورے قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے۔ بیماری کی وجہ سے سالانہ 15 سپاروں کی تفسیر بیان کیا کرتے تھے۔ تصویر اور بینکنگ جیسے مسائل پر ان کے دلائل کے آگے بڑے بڑے علمائے کرام خاموش ہوجایا کرتے تھے۔

پاکستان یکجہتی کونسل سندھ کے رہنما علامہ قاری سجاد تنولی کا کہنا تھا کہ مفتی زر ولی خانؒ کی رحلت سے ملک ایک بڑے عالم دین سے محروم ہوگیا ہے۔ وہ ایک بے باک و نڈر عالم دین تھے۔ ان کی کتابیں اور بیانات اب بھی لوگوں کو دین کی جانب راغب کررہے ہیں۔

مفتی زر ولی خانؒ کے مدرسہ کے اساتذہ مفتی لعل مرجان، مولانا عنایت اللہ خان سمیت دیگر اساتذہ نے مفتی زر ولی خانؒ کی رحلت کو عظیم سانحہ قرار دیا ہے۔ وفاق المدارس العربیہ جنوبی پنجاب کے ناظم اور جامعہ فاروقیہ شجاع آباد کے مہتمم مولانا زبیر احمد صدیقی کا کہنا تھا کہ علما و مشائخ کی کثرت سے رحلت، امت کے لیے ابتلاء عظیم ہے۔ مفتی زر ولی خانِؒ حدیث و فقہ اور تفسیر میں سند کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کی شجاعت، حق گوئی برسوں یاد رہے گی۔ تقریر و تحریر میں بھی ان کی خدمات نا قابل فروش ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ احادیث میں ذکر کردہ قیامت کی علامات کا ظہور ہو رہا ہے۔ امت مسلمہ کو رجوع الی اللہ، توبہ و استغفار اور ترک معاصی کی جانب متوجہ ہونا ہوگا۔ فحاشی، عریانی، بد دیانتی اور خیانت جیسے گناہ، اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ ایمان، علم، صحت و زندگی کی نعمتیں سلب کر رہے ہیں۔

جامعہ صدیقہ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر منظور احمد مینگل کا کہنا تھا کہ مفتی زر ولی خانؒ علم اور حلم کا پہاڑ تھے۔ وہ بے باک عالم دین تھے۔ بغیر لگی لپٹی کے بات کیا کرتے تھے۔ وہ حضرت بنوریؒ کے علم و فضل کی واضح مثال تھے۔ انہوں نے قرآن کریم اور علم حدیث کی بہت خدمت کی ہے۔ اللہ تعالی امتِ مسلمہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ ان کے ادارے کو یوں ہی علم کی بہاریں پھیلانے والا ادارہ بنائے۔ مفتی زر ولی خانؒ، اللہ تعالی کے ولی تھے۔ انہوں نے اپنے پرائے کی پرواہ کئے بغیر ہمیشہ سچ کو سچ کہا اور علمی دنیا میں استدلال کے ساتھ اپنی بات کو پیش کیا۔