مستحقین کے نام پر ماہانہ لاکھوں روپے نکالے جا چکے-گرفتارملزمان کا انکشاف۔فائل فوٹو 
مستحقین کے نام پر ماہانہ لاکھوں روپے نکالے جا چکے-گرفتارملزمان کا انکشاف۔فائل فوٹو 

جعلسازوں نے احساس کفالت پروگرام میں بھی نقب لگادی

رپورٹ:عمران خان
ایف آئی اے سائبرکرائم ونگ سکھر کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ حبیب بینک اور وفاقی حکومت کے (بینظیرانکم سپورٹ پروگرام) احساس کفالت پروگرام کے نظام کی بائیو میٹرک مشینیں جرائم پیشہ افراد کے ہاتھ لگ گئی ہیں جو ملک کے دوردرازکے علاقوں میں انہیں اپنے گھروں پر رکھ کر مستحق افراد کے ناموں پر پیسے نکال رہے ہیں۔ ایسے افراد کے ناموں پر بھی پیسے نکلوائے جاتے رہے جو نادرا کے ریکارڈ کے مطابق انتقال کر چکے ہیں۔

جعلسازوں نے فراڈ کے لیے بینکوں اورقومی اداروں کے سسٹم میں نقب زنی کرکے لاکھوں شہریوں کے فنگر پرنٹس کا ریکارڈ حاصل کرلیا ہے جن کے ربرکے جعلی انگوٹھے بناکر خودکار سسٹم سے ہر ماہ اندرون سندھ اور پنجاب کے دیہی علاقوں کے مستحقین کے نام پر کفالت پروگرام سے لاکھوں روپے بٹور رہے ہیں۔

4 اہم ملزمان کی گرفتاری اور وارداتوں میں استعمال ہونے والے سامان کی بر آمدگی کے بعد ثبوت سامنے آنے پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سکھر کی ٹیموں نے تحقیقات کا دائرہ متعلقہ بینک اور اداروں کے مشکوک افراد کو بھی تحقیقات میں شامل کرلیا ہے۔ گرفتار ملزمان میں حبیب بینک کا رجسٹرڈ ریٹیلر بھی شامل ہے۔
وفاقی حکومت کے (بینظیر انکم سپورٹ پروگرام) احساس کفالت پروگرام کے نظام کیلئے وزیراعظم کی معاون خصوصی ثانیہ نشتر کی جانب سے بار ہا دعویٰ کیا گیا ہے کہ پروگرام کے تحت ملک بھر کے لاکھوں مستحق افراد کو ہر ماہ شفاف انداز میں رقوم تقسیم ہوتی ہیں۔ اسی نظام سے کورونا کے دوران امداد تقسیم کی گئی تھی۔ تاہم فول پروف اور شفاف قرار دیا جانے والا یہ پروگرام بھی جعلسازوں کی نقب زنی سے محفوظ نہیں رہا۔

’’امت‘‘ کو ذرائع سے موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق ایک ایسی ہی فراڈیئے گروپ کا سراغ اس وقت لگایا گیا۔ جب ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سکھر کے انچارج اسسٹنٹ ڈائریکٹر امجد علی عباسی کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈویژنل ڈائریکٹر جمیل احمد شیخ کی جانب سے ایک تحریری کمپلین دی گئی۔ جس میں بتایا گیا کہ کچھ افراد مستحق افراد کے ناموں پر خودکار سسٹم کے ذریعے ہر ماہ جعلسازی سے رقوم بٹو رہے ہیں۔

رواں برس ستمبر کے آخر میں دی گئی اس کمپلین میں ایف آئی اے کو مذکورہ ڈسٹری بیوٹر کے نام جاری ہونے والی ڈیوائس کے کوائف بھی دیئے گئے۔ جہاں سے مستحقین کے جعلی انگوٹھے لگاکر رقوم نکالی جا رہی تھیں۔ مذکورہ تحریری درخواست پر ایف آئی اے میں انکوائری نمبر 70/2020 درج کرکے تحقیقات شروع کی گئیں۔

ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سکھرکی جانب سے مذکورہ ڈیوائس کا تمام متعلقہ ریکارڈ حاصل کرنے کیلئے حبیب بینک کی انتظامیہ کو خطوط ارسال کیے گئے جہاں سے کفالت پروگرام چلانے کے ذمے دار حبیب بینک کے ای کونیکٹ اتھارٹی کی جانب سے ایف آئی اے کو ریکارڈ فراہم کیا گیا۔ اس ریکارڈ کے مطابق کفالت پروگرام کے رجسٹرڈ شہریوں کو ان کی رہائش گاہوں کے قریب باآسانی خودکار سسٹم سے رقوم فراہم کرنے کیلئے بینک کی جانب سے بائیو میٹرک ڈیوائس ایجنٹ نمبرID-120647 اپنے ایک ریٹیلر عبدالحنان کو اس کے شناختی کارڈ نمبر 45105-2799806-1 پر جاری کی گئی تھی۔ جو جام پور مچکا روڈ پر گلی نمبر2 میں حنان موبائل شاپ کے نام سے دکان چلا رہا تھا۔

مذکورہ ریکارڈ ملنے پر ایف آئی اے کی ٹیم نے مذکورہ دکان پر چھاپہ مار کر عبدالحنان نامی شخص کو گرفتار کیا۔ جس نے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ وہ کفالت پروگرام میں مستحق شہریوں کو رقوم کے اجرا کیلئے حبیب بینک کا رجسٹرڈ ریٹیلر ہے تاہم اس نے مزید بتایا کہ اس نے اپنے نام پر جاری شدہ ایجنٹ آئی ڈی اور بائیو میٹرک ڈیوائس ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد کے علاقے بستی مراد آباد چانگ کے رہائشی محرم علی شناختی کارڈ نمبر 31304-0446447-9 کے ساتھ شیئر کر رکھی ہے اور وہی مستحقین کے نام پر رقوم نکالنے کا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔

ایف آئی اے کی ٹیم نے ملزم عبدالحنان کی نشاندہی پر ملزم محرم علی کو سکھر بائی پاس کے قریب سے گرفتار کر کے تفتیش کی۔ جس میں ملزم نے انکشاف کیا کہ ملزمان خلیل احمد اور جمشید فاروق مستحق کے جعلی انگوٹھے بناکر دے رہے تھے۔ ایف آئی اے کی ٹیم نے مذکورہ دونوں ملزمان کو بھی سندھڑی ہوٹل سکھر بائی پاس کے قریب سے ٹریس کرکے گرفتارکرلیا۔

مذکورہ تمام ملزمان سے تفتیش میں معلوم ہوا کہ عبدالحنان کے علاوہ دیگر تین ملزمان بستی مراد خان چانگ رحیم یار خان میں ملزم محرم علی کے گھر پر ہی سلیکون کے ذریعے شہریوں کے جعلی فنگر پرنٹس تیار کرتے تھے اور پھران جعلی انگوٹھوں کو اپنے انگوٹھوں پر چڑھا کر اس کو بائیو میٹرک مشین پر رکھ کر انسانی جسم کے مطابق حرارت دے کر کفالت پروگرام اور بینک کے مشترکہ خودکار نظام سے رقوم کی ٹرانزیکشنزکرلیتے تھے جبکہ ملزم عبدالحنان کو اپنی ایجنٹ آئی ڈی اور بائیو میٹرک مشین دینے پر مخصوص حصہ دیا جاتا تھا۔

ایف آئی اے کی ٹیم نے تمام ملزمان کو ساتھ لے کر ملزم محرم علی کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا۔ جہاں سے بائیو میٹرک ڈیوائس، 2 لیپ ٹاپ کمپیوٹر، 262 شہریوں کے ربر سے تیارکردہ جعلی انگوٹھے اور بے شمار شہریوں کے فنگر پرنٹس کا ریکارڈ بر آمد کیا گیا۔ ملزمان سے ملنے والے ریکارڈ اور بائیو میٹرک مشین کے ذریعے ہونے والی چھان بین سے انکشاف ہوا کہ ملزمان اس وقت 28 شہریوں کے جعلی انگوٹھے لگاکر ٹرانزیکشنز کرنے میں مصروف تھے۔

مذکورہ شہریوں کے شناختی کارڈ کا ڈیٹا ایف آئی اے کی جانب سے نادرا حکام کو بھیج کر تصدیق کی گئی۔ جس کے جواب میں انکشاف ہوا کہ مذکورہ شہری وفاقی حکومت کے کفالت پروگرام میں رجسٹرڈ ہیں۔ تاہم ان میں سے 3 ایسے لوگوں کے شناختی کارڈ نمبر بھی پائے گئے جن کا انتقال ہوچکا ہے اوراب نادرا کے سسٹم میں ان کے شناختی کارڈ منسوخ ہیں۔

ذرائع کے مطابق تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ جعلسازوں نے اس فراڈ کے لئے بینکوں اور قومی اداروں کے سسٹم میں نقب زنی کرکے لاکھوں شہریوں کے فنگر پرنٹس کا ریکارڈ حاصل کیا۔ جس کے بعد ان کے ربر کے جعلی انگوٹھے بنا بناکر خودکار سسٹم سے ہر ماہ اندرون سندھ اور پنجاب کے دیہی علاقوں کے مستحقین کے نام پر کفالت پروگرام سے لاکھوں روپے بٹورتے رہے۔

ملزمان کو شہریوں کا نجی اور حساس ڈیٹا کہاں سے مل رہا ہے اور بینک، نادرا یا کفالت پروگرام کے اندر موجود کون سے عناصر ان ملزمان کو سہولت کاری فراہم کر رہے ہیں۔ ان تمام سوالات کے جواب حاصل کرنے اور حقائق منظر عام پر لانے کیلئے ایف آئی اے کی ٹیم نے تحقیقات کا دائرہ متعلقہ بینک اور اداروں کے بعض افراد کو بھی تحقیقات میں شامل کرلیا ہے۔

ذرائع کے بقول یہ ایک انتہائی سنگین صورتحال ہے کہ فول پروف سمجھے جانے والے اداروں سے نہ صرف حساس ڈیٹا لیک ہوکر جرائم پیشہ افراد تک پہنچ رہا ہے۔ بلکہ بائیو میٹرک مشینیں بھی ان کی رسائی میں آگئی ہیں۔ اس لیے پورے نیٹ ورک کو بے نقاب کرکے نظام میں موجود ان خامیوں کو سامنے لانا ضروری ہے۔ جنہیں یہ جرائم پیشہ عناصر استعمال کر رہے ہیں۔