لاہورہائیکورٹ میں انٹرنیٹ سے توہین آمیز مواد ہٹانے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔فائل فوٹو
لاہورہائیکورٹ میں انٹرنیٹ سے توہین آمیز مواد ہٹانے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔فائل فوٹو

گوگل کیخلاف مقدمہ ہوسکتا ہے تو کریں۔لاہور ہائیکورٹ

لاہورہائیکورٹ میں انٹرنیٹ سے توہین آمیز مواد ہٹانے کی درخواست پر چیف جسٹس نے وکیل سے استفسارکیا کہ کیا گوگل اتھارٹی کے خلاف پرچہ ہو سکتا ہے ؟اورحکم دیا کہ اگرایف آئی اے کے پاس اختیار ہے تو گوگل کے خلاف پرچہ درج کرے،لاہور ہائیکورٹ نے30 دسمبرکو ڈی جی ایف آئی اے سمیت دیگرافسران کوطلب کرلیا۔

لاہورہائیکورٹ میں انٹرنیٹ سے توہین آمیز مواد ہٹانے کی درخواست پر سماعت ہوئی،ڈی جی ایف آئی اے سمیت دیگرافسران لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے،وکیل وفاقی حکومت نے کہاکہ مواد ہٹانے کے معاملے پرایف آئی اے نے ہی کارروائی کرنی ہے ،چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ دن بدن معاملہ خراب ہو رہا ہے ، بیرون ملک سے بیٹھ کر توہین آمیز مواد پاکستان میں پھیلائے تو ایف آئی اے کیا کرے گا؟۔

چیف جسٹس قاسم خان نے وکیل سے استفسار کیاکہ ملک میں جتنے قوانین ہیں کیا ان کولاگو کرنا حکومت کا کام نہیں ؟،ہم کیسی مدینہ کی ریاست میں ہیں کہ بنیادی ذمے داری ہی پوری نہیں کر رہے ،ایف آئی اے میں ایساونگ ضرور ہونا چاہیے جو توہین آمیز مواد ہٹائیں۔

چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے کہاکہ حکومت سارے توہین آمیز مواد کو ہٹا دے یا سسٹم بند کر دے،حکومت کھل کر بیان دے دے کہ کچھ نہیں کرنا، ایف آئی اے نے بھی رپورٹ جمع کرا کر جان ہی چھڑائی ہے ۔

چیف جسٹس نے وکیل سے استفسارکیا کہ کیا گوگل اتھارٹی کے خلاف پرچہ ہو سکتا ہے ؟،اگر ایف آئی اے کے پاس اختیار ہے تو گوگل کے خلاف پرچہ درج کرے،لاہور ہائیکورٹ نے30 دسمبرکو ڈی جی ایف آئی اے سمیت دیگرافسران کوطلب کرلیا۔