چاروں ایڈووکیٹ جنرلزاورالیکشن کمیشن کے جواب کاجائزہ لیں گے۔سپریم کورٹ۔فائل فوٹو
چاروں ایڈووکیٹ جنرلزاورالیکشن کمیشن کے جواب کاجائزہ لیں گے۔سپریم کورٹ۔فائل فوٹو

سینیٹ انتخابات۔ سپریم کورٹ نے اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کیلیے رائے طلب کرلی

سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ یاشوآف ہینڈزکے ذریعے کرانے کیلیے رائے طلب کرلی، عدالت نے صدارتی ریفرنس پراٹارنی جنرل ،قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرزکو نوٹس جاری کردیا،عدالت نے کہا اس نکتے پرکوئی اپنی رائے دیناچاہے تو پبلک نوٹس بھی مشتہرکیاجائے،جو کوئی بھی اس معاملے میں معروضات دیناچاہتاہے وہ دو ہفتوں میں جمع کرائے۔

نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے صدارتی ریفرنس پرسماعت ہوئی ،چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجربنچ نے سماعت کی،جسٹس مشیرعالم،جسٹس عمرعطابندیال،جسٹس اعجازالاحسن شامل ہیں،جسٹس یحییٰ آفریدی 5 رکنی بنچ کاحصہ ہیں ۔

ریفرنس میں حکومت کی جانب سے موقف اختیارکیاگیاہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت نہیں کرائے جاتے،سینیٹ کاانتخاب الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت کرایاجاتاہے،اوپن بیلٹ سے سینیٹ الیکشن میں شفافیت آئےگی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آئین میں سینیٹ اوراسمبلی انتخابات کاذکرہے،انتخابات کیسے ہونے ہیں یہ بات الیکشن ایکٹ میں درج ہوگی،مقامی حکومتوں کے انتخابات کاآئین میں ذکرنہیں،الیکشن ایکٹ بھی آئین کے تحت ہی بناہوگا،کیاکوئی آئین وقانون سے بالاترہوسکتا ہے؟۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے نہ کرنے کاسوال اٹھایا،کیاآرٹیکل 226 کااطلاق آئین کے تحت ہونے والے الیکشن پرہوتاہے؟،عدالت نے کہاکہ آپ چاہتے ہیں آئین وقانون کے تحت انتخابات میں فرق واضح کریں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ صوبائی حکومتوں اورالیکشن کمیشن کونوٹس جاری کررہے ہیں،عدالت نے کہاکہ چاروں ایڈووکیٹ جنرلزاورالیکشن کمیشن کے جواب کاجائزہ لیں گے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسارکیا کہ کیاقومی اسمبلی کاانتخاب آئین کے تحت نہیں ہوتا؟،اٹارنی جنرل نے کہاکہ عام انتخابات الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ہوئے،آئین کے تحت نہیں،

عدالت نے صدارتی ریفرنس پرچاروں ایڈووکیٹ جنرلز،قومی وصوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز،الیکشن کمیشن اورچیئرمین سینیٹ کوبھی نوٹس جاری کردیے۔عدالت نے کہاکہ کوئی جماعت چاہے کہ اسے سناجائے تووہ فریق بن سکتی ہے،صدارتی ریفرنس پرمزیدسماعت 11 جنوری کوہوگی ۔