سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پراٹارنی جنرل خالد جاوید نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ سنجیدگی سے سوچا کہ معاملہ دوبارہ پارلیمنٹ کو بھیجا جائے،لیکن ایسا کرنادرست نہیں سمجھتا،اگرآرٹیکل میں ترمیم درکار ہے تو معاملہ پارلیمنٹ بھیجا جائے،اس معاملے میں ترمیم نہیں بلکہ تشریح درکار ہے ،آئین کی تشریح کااختیار صرف اس عدالت کے پاس ہے ۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ جسٹس یحییٰ آفریدی کے گزشتہ روز کے سوالات پر بات کرناچاہتا ہوں،جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاتھا یہ معاملہ اخلاقی ہے نہ کہ قانونی،اس عدالت کے تین دائرہ اختیار ہیں ،اختیار آرٹیکل 184 ون آرٹیکل 184 تھری اورآرٹیکل 186 کے تحت ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہاکہ سنجیدگی سے سوچا کہ معاملہ دوبارہ پارلیمنٹ کو بھیجا جائے،لیکن ایسا کرنادرست نہیں سمجھتا،اگرآرٹیکل میں ترمیم درکار ہے تو معاملہ پارلیمنٹ بھیجا جائے،اس معاملے میں ترمیم نہیں بلکہ تشریح درکار ہے ،آئین کی تشریح کااختیار صرف اس عدالت کے پاس ہے ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ آرٹیکل پر معاونت کریں کہ آئین کی تشریح کیسے کریں ،بنیادی سوال ہے کہ کون اس آرٹیکل کی تشریح کرے گا، اٹارنی جنرل نے کہاکہ ریفرنس کی بنیاد ہے سپریم کورٹ آرٹیکل 226 کی تشریح کرے ،سپریم کورٹ نے کبھی خود کو آئین سے بالاتر نہیں قراردیا ،سپریم کورٹ آئین کے تابع ہے ،ہمیشہ آئین کی بالادستی کی ہے،سپریم کورٹ نے ہی آئین کی تشریح کرنی ہے،آئین کی تشریح کااختیار آئین نے ہی اعلیٰ عدلیہ کو دیا ۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہاکہ عدالت دو حکومتوں کے درمیان تنازعات پر فیصلہ کرسکتی ہے ،سپریم کورٹ ہائیکورٹ کے خلاف اپیلیں بھی سنتی ہے ،سپریم کورٹ ریفرنس پر مشورہ اورگائیڈلائن بھی دے سکتی ہے ۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ اوپن بیلٹ کیلیے آرٹیکل 226 میں ترمیم ضروری ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ پارلیمان قانون بناتی اور عدلیہ اس کی تشریح کرتی ہے ۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ سپریم کورٹ اپیلٹ فورم کے ساتھ آئینی عدالت بھی ہے ،امریکی سپریم کورٹ کے پاس ریفرنس پر رائے کااختیار نہیں ۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ سپریم کورٹ کے بعد کوئی اپیلٹ فورم موجود نہیں ،عدالت کو انتہائی احتیاط سے کام لینا ہوگا ،اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت نے کبھی سیاسی معاملات پر بات نہیں کی ،سپریم کورٹ نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کااختیارپارلیمنٹ کو دیا ،ہٹلر بھی منتخب نمائندہ تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ کل کوکوئی آکر خود کو خلیفہ کہے تو عدالت اجازت نہیں دے گی ،عدالت نے صدرکو اسمبلی توڑنے کااختیار دیا تھا، نوازشریف کیس میں اسمبلی تحلیل کرنے حکم کالعدم قراردیا گیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ عدالت کی تشریح کے تو سب پابندہوں گے،اٹارنی جنرل پاکستان نے کہاکہ عدالت کے پاس اختیار ہے وہ کسی طرح آرٹیکل 226 کی تشریح کرے ،صدر،وزیراعظم اوراسپیکر انتخاب ٹربیونل میں چیلنج نہیں ہو سکتے،آرٹیکل225 کے تحت عام انتخابات ٹربیونل میں چیلنج ہو سکتے ہیں ۔