لاہور: مدارس کو سیاست سے دور رکھنے اوران کے نظام کومزید بہتربنانے کے لئے حکومت نے نئی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔
ذرائع کے مطابق مختلف مکاتب فکرکے وفاق المدارس کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کے لیے وفاقی وزارت تعلیم کی طرف سے فروری میں نوٹیفکیشن جاری کیے جانے کا امکان ہے۔ دوسری طرف وفاق المدارس العربیہ کے صدر اورسیکریٹری کے انتخاب کے حوالے سے ہونے والے انتخابات ملتوی کردیے گئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ مولانافضل الرحمان کو وفاق المدارس کا سربراہ بنائے جانے کی خبریں سامنے آنے کے بعد یہ انتخابات ملتوی کیے گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں اس وقت دینی مدارس کے نمائندہ پانچ وفاق المدارس یا بورڈز ہیں جن میں وفاق المدارس العربیہ دیوبندی مکتبہ فکر، تنظیم المدارس اہل سنت، وفاق المدارس الشیعہ، وفاق المدارس سلفیہ اورتنظیم رابطۃ المدارس (جماعت اسلامی) شامل ہیں۔ یہ ’’وفاق‘‘ دینی مدارس کے لئے ایک بورڈکادرجہ رکھتے ہیں جو طلباوطالبات کو سند جاری کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ منہاج القرآن، جامعہ اشرفیہ، جامعہ محمدیہ غوثیہ اور دارالعلوم جامعہ بنوریہ کراچی کے پاس بھی سندجاری کرنے کا اختیارہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے مدارس کے وفاق کی تعدادبڑھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ دینی مدارس کویہ اختیارہوگا کہ وہ کسی بھی وفاق المداس (بورڈ) کے ساتھ الحاق کرسکیں گے۔ ذرائع کے مطابق مختلف مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کے زیرانتطام مدارس کے الگ سے بورڈبنانے کی منظوری دی جائے گی۔
اسی طرح منہاج القرآن، جامعہ محمدیہ غوثیہ، جامعہ اشرفیہ، جامعہ نعیمیہ، جامعہ اکوڑہ خٹک ،جامعہ بنوریہ، جامعہ عروۃ الوثقی،جامعہ رضویہ فیصل آباد سمیت دیگر دینی جامعات کو وفاق کا درجہ دے کر ملک بھرسے دینی مدارس ان کے ساتھ الحاق کی اجازت دی جائے گی۔
دوسری طرف وفاق المدارس العربیہ کے صدر اورجنرل سیکرٹری کے انتخاب کے حوالے سے ہونے والااجلاس ملتوی ہوچکا ہے اورابھی تک اجلاس بلانے کی نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمن کو وفاق المدارس العربیہ کاسربراہ بنائے جانے کی خبروں کے بعد جب وفاق المدارس العربیہ میں شامل بعض مدارس کی طرف سے اعتراضات سامنے آئے تو انتخابات ملتوی کردیے گئے ہیں۔
وفاق المدارس العربیہ کو دینی مدارس سے متعلق قانونی سازی کے حوالے سے بعض پہلوؤں پراعتراض ہے۔ خاص طورپرخیراتی امداد کے معاملے پرتحفظات ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ میں شامل بعض مدارس کی خواہش ہے کہ سربراہ ایسی شخصیت کوہوناچاہیےجوحکومت پردباؤ ڈال سکے ۔ تاہم کئی مدارس ایسے ہیں جودینی تعلیم کے نظام کو سیاسی مداخلت سے پاک رکھناچاہتے ہیں۔