سپریم کورٹ میں سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے کے صدارتی ریفرنس پرسماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہاکہ سینیٹ الیکشن میں پارٹی امیدوار کوووٹ لازمی دینے کاکوئی قانون نہیں،4 اپریل1977 میں بھٹو کو بطورقاتل پھانسی ہوئی آج وہ شہید ہیں،جھوٹ کے پاﺅں نہیں ہوتے سچ برقرار رہتا ہے،کیاکوئی سوچ سکتا تھا بھٹو قتل کیس کافیصلہ برقرار رہے گا،اس وقت مسئلہ ووٹ پارٹی کے خلاف دینے پرسزاکا نہیں۔
سپریم کورٹ میں سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے کے صدارتی ریفرنس پر سماعت جاری ہے،چیف جسٹس گلزاراحمدکی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ سماعت کررہاہے،اٹارنی جنرل خالد جاوید نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن فری اینڈفیئر الیکشن منعقد کرانے کاپابندہے،اس مقصدکیلیے ایک قانون ہونالازمی ہے ،یہ عوام کا حق ہے انہیں علم ہومنتخب رکن کس کو ووٹ دے رہا ہے،سینیٹ میں ووٹر پہلے اپنی پارٹی نہیں عوام کو جواب دہ ہے ۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ صدر مملکت جانناچاہتے ہیں اوپن بیلٹ کیلئے آئینی ترمیم ضروری ہے یانہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ پارٹی کیخلاف ووٹ دینے پر نااہلی نہیں ہوسکتی تومسئلہ کیاہے؟،پہلے دن سے مجھے اس سوال کاجواب نہیں مل رہا،کوئی قانون منتخب رکن کو پارٹی امیدوار کوووٹ دینے کاپابند نہیں کرتا،ووٹ فروخت کرنے کے شواہد پرہی کوئی کارروائی ہو سکتی ہے،اوپن ووٹنگ میں ووٹ فروخت کرنے کے شواہد نہ ہوں توکچھ نہیں سکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہااوپن بیلٹ کا مقصد سیاستدانوں کو گنداکرنا نہیں ہے،حکومت صرف انتخابی عمل کی شفافیت چاہتی ہے،کسی کی نااہلی چاہتے ہیں نہ ہی کسی منتخب رکن کیخلاف کارروائی کرنا،لوگوں کو معلوم ہوناچاہئے ان کے نمائندے نے کس کو ووٹ دیا،کسی رکن اسمبلی کی ناہلی کے حق میں ہیں ہیں ،ارکان اسمبلی کااحتساب بیلٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ آپ چاہتے ہیں پارٹی کیخلاف ووٹ دینے والوں کا احتساب پانچ سال بعدہو،اٹارنی جنرل نے عوام کوعلم ہونا چاہئے کس نے پارٹی کیخلاف ووٹ دیا،لوگ صرف امیدوار کو نہیں پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں ،ملک میں جمہوریت پہلے سے بہت بہتر ہو چکی ہے۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ پارٹی کو ووٹ نہ دینے پر نااہل نہیں تویہ تبدیلی صرف دکھاواہوگی،جسٹس عمر عطابندیال نے استفسارکیاکہ وزیراعظم کوکیسے علم ہواکہ 20 ایم پی ایز نے ووٹ بیچا؟، اٹارنی جنرل نے کہاکہ وزیراعظم نے کمیٹی بنائی تھی جس کی سفارش پرکارروائی کی، کارروائی پر وزیراعظم کیخلاف ہتک عزت کامقدمہ بن گیا،سزا دینے سے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم ہونی چاہیے، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ عدالت میں مقدمہ آئینی تشریح کاہے،جسٹس عمرعطابندیال نے کہاکہ پارٹی کوچاہیے عوام کو بتائے کس رکن نے دھوکادیا۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ سینیٹ الیکشن میں پارٹی امیدوارکوووٹ لازمی دینے کاکوئی قانون نہیں،4 اپریل1977 میں بھٹو کو بطورقاتل پھانسی ہوئی آج وہ شہید ہیں،جھوٹ کے پاﺅں نہیں ہوتے سچ برقرار رہتا ہے،کیاکوئی سوچ سکتا تھا بھٹو قتل کیس کافیصلہ برقر ار رہے گا،اس وقت مسئلہ ووٹ پارٹی کے خلاف دینے پر سزاکانہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ووٹرز توکہتے ہیں رکن اسمبلی ہماری خدمت کیلئے ہیں،عوام ارکان اسمبلی کو اس لئے منتخب نہیں کرتے کہ وہ اپنی خدمت کرتے رہیں،جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ ریفرنس پر عدالتی حتمی رائے فیصلہ نہیں ہوگی،حکومت کو ہر صورت قانون سازی کرناہوگی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ حکومت نے قانون سازی کرنی ہے تو کرے مسئلہ کیاہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ حکومت کاخیال ہے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کافی ہے، عدالت سے رائے اس لیے مانگی کہ بعدمیں قانونی مسائل نہ بنیں،تمام انتخابات پرآرٹیکل 226 کااطلاق نہیں ہوتا،جب آئین بنا توہارس ٹریڈنگ کاکسی کو علم نہیں تھا،1947 میں کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ کوئی پیسے لے کر ووٹ بیچے گا۔