امت رپورٹ
پی ڈی ایم کے طویل اجلاس میں آخرکار لانگ مارچ کی حتمی تاریخوں کا تعین کرلیا گیا۔ جبکہ سینیٹ الیکشن مل کر لڑنے پر بھی اتفاق رائے ہوگیا۔ تاہم تحریک عدم اعتماد اور اجتماعی استعفوں پر مشاورت کا نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ واضح رہے کہ جمعرات کی رات پی ڈی ایم سربراہی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے چھبیس مارچ کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا۔ جے یوآئی سربراہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ پی ڈی ایم اسلام آباد میں دھرنے کے لئے آنے والے سرکاری ملازمین کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی۔ یاد رہے کہ ایک روز پہلے ’’امت‘‘ نے انہی صفحات پر اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ حکومت کو خوف ہے کہ اسلام آباد میں دھرنے کے لئے آنے والے سرکاری ملازمین کے احتجاج کو اپوزیشن اتحاد کہیں ہائی جیک نہ کرلے۔ وفاقی دارالحکومت میں دھرنے کے لئے سرکاری ملازمین کے دو گروپ تیاری کر رہے ہیں۔ پہلے گروپ نے دس فروری کو وفاقی دارالحکومت پہنچنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ اکسٹھ سرکاری اداروں کے لاکھوں ملازمین سترہ فروری کو اسلام آباد پہنچیں گے۔
پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کی کارروائی سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے فیصلہ کن لہجے نے لانگ مارچ کی حتمی تاریخ طے کرنے کا راستہ ہموار کیا۔ اس موقع پر نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ جبکہ محمود اچکزئی، آفتاب شیر پائو اور اویس نورانی کی تائید بھی انہیں حاصل رہی۔ لہٰذا تمام شرکا کے اتفاق رائے کے پیش نظر بلاول بھٹو زرداری کو بھی اس سے اتفاق کرنا پڑا۔ ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم سربراہی اجلاس سے ایک روز قبل بدھ کی رات مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز کے درمیان ہونے والی ملاقات میں یہ طے کرلیا گیا تھا کہ اس بار پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں فیصلہ کن اعلانات کئے جانے ضروری ہیں۔ کیونکہ ملک بھر کے عوام کی نظریں اس اہم اجلاس پر مرکوز ہیں۔ بعد ازاں سربراہی اجلاس کی رات طے کئے جانے والے لائحہ عمل پر عمل کیا گیا۔ لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کے حوالے سے دونوں پارٹیوں کے رہنمائوں کو بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے اعتراض کا خدشہ تھا۔ لہٰذا اس معاملے پر پہلے ہی اچکزئی، آفتاب شیرپائو اور اویس نورانی کو اعتماد میں لے لیا گیا تھا، کہ جب سب مل کر فیصلہ کن اعلان پر زور دیں گے تو پی پی چیئرمین کے پاس پہلو بچانے کا راستہ نہیں بچے گا۔ لانگ مارچ کے علاوہ دوسرا اہم ایشو جس پر اتفاق رائے کیا گیا۔ وہ سینیٹ الیکشن مشترکہ پلیٹ فارم سے لڑنے سے متعلق تھا۔ تاہم سربراہی اجلاس میں ایک اور اہم معاملہ تحریک عدم اعتماد پر مشاورت آخر تک نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی۔ ذرائع کے مطابق اس پر بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز نے براہ راست بھی ایک دوسرے سے مکالمہ کیا۔ تاہم بلاول بھٹو زرداری اپنے اس موقف میں دیئے جانے والے دلائل میں کوئی ٹھوس جواز دینے سے قاصر رہے۔ اس ایشو پر پی ڈی ایم کے دیگر قائدین کی مشاورت کے بعد آخر کار طے کیا گیا کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ سینیٹ الیکشن کے بعد کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کے آغاز کی تاریخ چھبیس مارچ طے کئے جانے کے بعد واضح ہوگیا ہے کہ اگر پی پی کی تجویز کردہ تحریک عدم اعتماد کے آپشن پر تمام پی ڈی ایم قائدین نے اتفاق بھی کرلیا تو پھر بھی یہ آپشن لانگ مارچ کے بعد ہی ممکن ہے۔ کیونکہ سینیٹ الیکشن اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے سلسلے میں مارچ کا وسط آجائے گا۔ اس کے بعد تحریک عدم اعتماد کی تیاری کا وقت نہیں بچے گا اور لانگ مارچ کی تاریخ سر پر آجائے گی۔ اسی طرح استعفوں کے معاملے پر بھی سینیٹ الیکشن کے بعد غور کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز کی کوشش تھی کہ اجتماعی استعفوں کے معاملے پر بھی اسی اجلاس میں کوئی فیصلہ کرلیا جائے۔ تاہم بلاول بھٹو زرداری کا موقف تھا کہ جلد بازی میں اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ ویسے بھی پیپلز پارٹی اجتماعی استعفوں کے آپشن کو سب سے آخری آپشن کے طور پر استعمال کرنے کے حق میں ہے۔ ذرائع کے مطابق جب اس ایشو پر طویل بحث و مباحثے کے بعد بھی اتفاق رائے نہ ہوسکا تو پھر تحریک عدم اعتماد کا ایشو بھی سینیٹ الیکشن کے بعد زیر غور لانے کا فیصلہ کیا گیا۔
پی ڈی ایم کے طویل ترین اجلاس کی اندرونی کہانی سے واقف ذرائع نے مزید بتایا کہ بلاول بھٹو زرداری نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے شرکا کو مطمئن کرنا تھا کہ ان کے پاس ایسی کون سی نمبر گیم ہے۔ جس کی بنیاد پر پیپلز پارٹی ان ہائوس تبدیلی کا آپشن استعمال کرنے پر زور دے رہی ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق تحریک عدم اعتماد سے متعلق اپنے موقف کے جواز میں پی پی چیئرمین تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں مجوزہ تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے اپوزیشن اتحاد کے پاس مطلوبہ نمبر نہیں۔ لیکن اس سلسلے میں حکومتی اتحادیوں سے بات چیت کرکے صورتحال تبدیل کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ایم کیو ایم اور قاف لیگ کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ یہ دونوں اتحادی پارٹیاں حکومت سے خوش نہیں۔ اگر پی ڈی ایم ان اتحادی پارٹیوں کو کنوینس کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر پہلے وزیراعلیٰ پنجاب اور بعد ازاں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا آسان ہوجائے گی۔ اس پر مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز نے تسلیم کیا کہ حکومت کے اتحادی اس سے خوش نہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک انہیں کہیں اور سے اشارہ نہیں ہوتا، وہ الگ نہیں ہوں گے۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ نمبر پورے نہ ہونے پر بھی تحریک عدم اعتماد لانے کا رسک لے لیا جائے۔ ذرائع کے بقول بالخصوص جے یو آئی کا اصرار تھا کہ جب تک سو فیصد کامیابی کا یقین نہ ہو جائے۔ تحریک عدم اعتماد کا آپشن استعمال کرنا دانشمندی نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس متوقع ناکامی سے پی ڈی ایم کی ساکھ بری طرح متاثر ہوجائے گی۔ ذرائع کے مطابق پی پی چیئرمین جب تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے متعلق کوئی ٹھوس فارمولہ پیش کرنے میں ناکام رہے تو پھر اجلاس میں اجتماعی استعفوں کا آپشن زیر بحث آیا۔ اس پر بھی پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ استعفوں کا آپشن سب سے آخر میں رکھا جانا چاہئے۔ تاہم اس سے پہلے لانگ مارچ کا آپشن استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس سے پہلے پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیر صدارت پارٹی رہنمائوں کی اہم میٹنگ ہوئی تھی۔ اس میٹنگ میں طے کرلیا گیا تھاکہ پی ڈی ایم اجلاس میں کیا موقف اپنانا ہے۔ طے یہ کیا گیا تھا کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے موقف کو بھرپور طریقے سے پیش کیا جائے گا۔ اجتماعی استعفوں کے آپشن کو سب سے آخر میں رکھنے کے موقف میں نرمی نہیں لائی جائے گی۔ تاہم اگر پی ڈی ایم کی تمام پارٹیوں نے لانگ مارچ پر اتفاق کیا تو اس پر آمادگی ظاہر کی جاسکتی ہے۔ بعد ازاں پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے وہی موقف اپنایا۔ جس پر میٹنگ میں پارٹی رہنمائوں کے ساتھ اتفاق کیا تھا۔ ذرائع کے بقول لانگ مارچ کے لئے چھبیس مارچ کی تاریخ طے کرنے کے موقع پر یہ سوال بھی اٹھایا گیا تھا کہ اپریل کے وسط میں ماہ رمضان بھی آرہا ہے۔ لہٰذا لانگ مارچ کو مئی میں رکھ لیا جائے۔ تاہم شرکا کی اکثریت کا کہنا تھا کہ مئی میں گرمی شروع ہوجائے گی۔ لہٰذا رمضان سے پہلے ہی کسی تاریخ پر اتفاق رائے ضروری ہے۔ پھر یہ کہ بغیر نتیجہ اجلاس ختم ہونے اور ٹھوس اعلانات نہ کئے جانے سے نہ صرف مخالفین کو ایشو مل جاتا ہے۔ بلکہ پارٹی ورکرز میں بھی مایوسی پھیلتی ہے۔ اپنے طے شدہ شیڈول کو آگے پیچھے کرنے کے سبب پہلے ہی پی ڈی ایم کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ اس طویل مشاورت کے بعد آخر کار لانگ مارچ کے لئے چھبیس مارچ کی تاریخ پر سب نے اتفاق کرلیا۔