رپورٹ: اقبال اعوان
کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں عظیم پورہ قبرستان میں واقع درگاہ مخدوم محمد شاہ میاںؒ جادو کے اثرات زائل کرنے کے حوالے سے معروف ہے۔ یہاں کے سجادہ نشین گلے کے متاثرہ غدود کا علاج ہری مرچ سے اور یرقان کا علاج نیم کے پتوں سے کرتے ہیں۔ اس مزار پر جِلد کی بیماریوں میں مبتلا افراد کی بڑی تعداد بھی روحانی علاج کیلئے آتی ہے۔ کورونا سے قبل یہاں روزانہ سینکڑوں زائرین آتے تھے۔ لاک ڈائون ختم ہونے کے بعد جمعرات کو درود پاک اور نعت خوانی کی محافل بحال کردی گئی ہیں۔ عام دنوں میں بھی پریشان حال، جسمانی و ذہنی امراض میں مبتلا لوگ درگاہ کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں جنات اور کالے جادو کے اثرات کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ خواتین کو مزار کے اندر جانے اور بزرگ کی قبر کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ مزار سرکاری سطح پر نہیں چلایا جا رہا، بلکہ مزار انتظامیہ اور ٹرسٹ والے ہی لنگر اور دیگر اخراجات پورے کرتے ہیں۔ دوران سروے ’’امت‘‘ نے دیکھا کہ مزار کے احاطے میں مرد و خواتین بڑی تعداد میں موجود تھے جو سجادہ نشین سے روحانی علاج کرانے آئے تھے۔ مزار کے باہر لکھا تھا کہ ماسک کے بغیر نہ آئیں اور مزار کے خادم بھی ایس او پیز پر عمل درآمد کرا رہے تھے۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے سجادہ نشین اطہر شاہ میاں کا کہنا تھا کہ یہ درگاہ مخدوم محمد شاہ میاںؒ کی ہے جو قیام پاکستان کے بعد بھارت کے شہر بریلی سے کراچی آئے تھے۔ مختلف جگہوں کے بعد ان کا آستانہ شاہ فیصل کالونی کے عظیم پورہ قبرستان میں قائم ہوا۔ اس دوران قبرستان کا احاطہ خاصا وسیع تھا۔ بزرگ نے عبادات سمیت وہاں آنے والے پریشان حال لوگوں، جسمانی و ذہنی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے روحانی علاج کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مخدوم محمد شاہ میاںؒ کا انتقال 1979ء میں ہوا اور ان کا مزار عظیم پورہ قبرستان میں بنایا گیا۔ سجادہ نشین کا کہنا تھا کہ مزار سے متصل جامع مسجد اولیاء میں بزرگ ہر شام کو درس دیا کرتے تھے۔ اب بھی جمعرات کو نعت خوانی اور درود پاک کی محافل ہوتی ہیں۔ سجادہ نشین نے بتایا کہ مزارات کی بندش نے ذہنی اور جسمانی مریضوں کو خاصا پریشان کر دیا تھا۔ آج کل نفسانفسی کا عالم ہے۔ لوگ اپنے رشتہ داروں کی بربادی کیلئے کالا جادو کرا رہے ہیں۔ جعلی عاملوں اور سفلی عمل کرنے والوں کی شہر میں بہتات ہے۔ مزارات تو پریشان حال لوگوں کیلئے فائدہ کا باعث ہیں کہ یہاں زائرین فاتحہ خوانی کرنے آتے ہیں۔ روح پرور ماحول ہوتا ہے۔ اگر لوگ جعلی عاملوں کے پاس جاتے ہیں تو وہ سادہ لوح لوگوں کی پریشانی کا فائدہ اٹھا کر رقم ٹھگتے ہیں اور مسئلہ بھی حل نہیں ہوتا ہے۔ جبکہ مزارات کے گدی نشین مفت میں روحانی علاج کرتے ہیں۔ اس مزار پر آنے والے زائرین کیلئے سہولت کی فراہمی اور لنگر کا انتظام ہم خود کرتے ہیں۔ یہاں چندے یا نذرانے کی وصولی کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نورانی طریقے سے علاج کرتے ہیں۔
درگاہ پر آنے والے 75 سالہ حاجی سلطان کا کہنا تھا کہ جب صاحبِ مزار زندہ تھے تو راتوں کو آستانے پر عبادت کرتے تھے۔ اس دوران آستانے پر کسی کی جانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ ایک جانب آستانے سے آسمان تک سفید روشنی نظر آتی تھی۔ دوسرے یہ کہ آستانے کے اطراف بڑے بڑے دو اژدھے پہرا دیتے نظر آتے اور لوگوںکے آنے پر قریبی قبروں میں چلے جاتے تھے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ وہ اژدھے، جنات تھے اور بزرگ کی حفاظت کرتے تھے۔ لوگوں کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔ یہاں کے پرانے گورکن بتاتے ہیں کہ مزار کے اطراف اب بھی کبھی کبھار راتوں کو اژدھے آتے جاتے دیکھے جاتے ہیں۔ لیکن گورکن خوف زدہ نہیں ہوتے۔
دوسری جانب عظیم پورہ قبرستان میں جگہ ختم ہونے پر تدفین کا سلسلہ ختم ہونے کی وجہ سے پھول اور چادر فروشوں کا کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے۔ ایک دکاندار علی محمد کا کہنا تھا کہ یہاں پر پہلے سات دکانیں تھیں۔ گلاب کے پھول، پتیاں، چادریں، تبرکات اور تدفین کے دوران ضرورت پڑنے والی چیزیں فروخت کیا کرتے تھے۔ اب صرف دو دکانیں رہ گئی ہیں اور کاروبار محض دس فیصد رہ گیا ہے۔ ہزاروں روپے کی جگہ اب سات، آٹھ سو روپے یومیہ بھی مل جائیں تو غنیمت ہے۔ قبرستان پر شب برات یا دیگر مذہبی تہواروں پر لوگ اپنے پیاروں کی قبر پر زیادہ آتے ہیں۔ جبکہ مزار پر جمعرات کو رش زیادہ ہوتا ہے۔