ان کوہ پیمائوں میں برطانوی خاتون کوہ پیما الیسون شامل تھیں-فائل فوٹو 
ان کوہ پیمائوں میں برطانوی خاتون کوہ پیما الیسون شامل تھیں-فائل فوٹو 

’’کے ٹو فتح کرنے کی جنگ میں 86 کوہ پیما جان کی بازی ہارچکے‘‘

احمد نجیب زادے:
گلگت بلتستان کی ٹور ازم پولیس نے تصدیق کی ہے کہ ’’فخر پاکستان‘‘ کہلائے جانے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ کوہ پیما علی سدپارہ اور دیگر دو عالمی کوہ پیماؤں سے گزشتہ 36 گھنٹوں سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔ ان کی تلاش کیلیے ریسکیو آپریشن میں شامل عسکری ہیلی کاپٹرز آج دوپہر بھی ان کی کھوج لگائیں گے۔

امدادی حکام نے اس آپریشن سے کچھ پہلے یہ افسوس ناک خبر بھی دی کہ دنیا کی دوسری بڑی برفانی چوٹی کے ٹو K2 سر کرنے کی کوشش میں ایک بلغاروی کوہ پیما بھی ہلاک ہوچکے ہیں، جس کے بعد گزشتہ دو دہائیوں میں K2 سر کرنے کی کوشش میں ہلاک ہونے والے کوہ پیماؤں کی تعداد 86 ہو چکی ہے۔

کے ٹو سر کرنے کی مہم کی منتظم کمپنی ’’سیون سمٹ ٹریکس‘‘ نے بلغاریہ کے کوہ پیما کی موت کے حوالے سے تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اٹناس اسکاٹوو کوہ پیما بیس کیمپ کی طرف بڑھتے ہوئے رسیاں تبدیل کرتے وقت گر کر ہلاک ہوگئے۔ ’’یون سمٹ ٹریکس‘‘ نے اپنی وضاحت میں کہا ہے کہ جس وقت اٹناس اسکاٹوو گرے تو اس وقت یقیناً کوئی غلطی سرزد ہوئی کیونکہ پہاڑ پر نئی رسیاں لگائی جارہی تھیں۔ بلغاریہ کی وزارت خارجہ نے بھی اس حادثے پر افسوس کا اظہار کیا اور مرنے والے کوہ پیما کی جرأت کو سلام پیش کیا۔

الپائن کلب آف پاکستان نے ہلاک بلغاروی کوہ پیما کی لاش برآمد کر لی ہے، جس کو ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں اسکردو پہنچایا گیا۔ K2 اس وقت حقیقی اعتبار سے قاتلانہ رخ اختیار کیے بیٹھا ہے کیونکہ گزشتہ ماہ کے ٹو سر کرنے کی کوشش کے دوران ایک ہسپانوی کوہ پیما ہلاک ہو گیا تھا۔ جبکہ اسی ماہ جنوری2021ء میں روسی نژاد امریکی کوہ پیما ایلکس گولڈفارب براڈ پیک نامی چوٹی سر کرنے کی کوشش میں مارا گیا تھا، لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ چند ہفتوں قبل شدید موسم سرما میں کے ٹو سر کرکے نیپالی کوہ پیماؤں نے تاریخ رقم کر دی تھی۔

ماہرین کے مطابق کے ٹو کو ’’خونیں پہاڑ‘‘ اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں حالات اچانک انتہائی خطرناک ہوجاتے ہیں اور بسا اوقات وہاں دو سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے تیز رفتار ہوائیں اور منفی 60 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت گرجاتا ہے، جس میں کوہ پیماؤں کیلئے موت کا کھلا پیغام ہے۔ ادھر فخر پاکستان کوہ پیما علی سد پارہ اور دو عالمی کوہ پیماؤں کی تلاش اور امدادی کاموں میں شریک حکام کا کہنا ہے کہ علی سدپارہ اور ان کے ساتھی کوہ پیماؤں کے پاس موجود آلات، سیٹلائٹ فونز اور ٹریکرز کام نہیں کر رہے ہیں جس سے یقین کیا جاتا ہے کہ یا تو وہ ان آلات کو آپریٹ نہیں کر پا رہے یا یہ آلات ناکارہ ہو چکے ہیں۔ یاد رہے کہ تینوں کوہ پیما انتہائی مشاق اور سخت جان ہیں اوران کے پاس واکی ٹاکی سیٹس بھی موجود تھے۔

محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارا جو ان کے ساتھ اس مشن میں موجود تھے، نے بتایا ہے کہ وہ اوکسیجن ٹینک کے ریگولیٹرزکی خرابی کو دور کروانے کیلیے والد علی اور دو کوہ پیماؤں سے جدا ہوکر واپس بیس کیمپ کی طرف آچکے تھے، اس لیے ان کی جان بچ گئی۔ ساجد سدپارہ کیمپ تھری سے واپس بیس کیمپ اتر چکے ہیں، ان کے ساتھ ٹور آپریٹرز رابطے میں ہیں۔

ساجد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد اور دو ساتھی کوہ پیماؤں کی مدد اور ان کو زندہ واپس لانے کیلئے جلد مہم شروع کریں گے اور اس سلسلہ میں ٹور آپریٹرز نے کم از کم چار سخت جان شرپاؤں کو تیار کردیا ہے اور امدادی سامان اور ٹریکرز سمیت اشیا جمع کرلی گئی ہیں۔

ادھر ہفتے کی رات ملی اطلاعات کے مطابق علی سد پارہ اور ان کے ساتھیوں کو تلاش کرنے کیلیے گئے آرمی کے دو ہیلی کاپٹرز ناکام مہم کے بعد واپس آگئے ہیں اور انہیں کوہ پیماؤں کے کوئی آثار نہیں ملے، اب یہی امدادی ہیلی کاپٹرز آج اتوار کو دوبارہ مہم کا آغاز کریں گے۔

ادھر سماجی میڈیا کی متضاد اطلاعات کے مطابق علی سدپارہ نے ساتھیوں سمیت کے ٹو کو سر کرلیا ہے لیکن ٹور کمپنی حکام کاکہنا تھا کہ وہ باٹل نیک تک پہنچ چکے تھے اور آگے کی کہانی کی تصدیق نہیں کرسکتے۔ یاد رہے کہ باٹل نیک 8200 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور اس کے بعد کے ٹو کی چوٹی تک پہنچنے والا فاصلہ نہایت دشوار گزار ہوتا ہے، عالمی ایکسپرٹس کا ماننا ہے کہ کے ٹو کو سر کرنے والے کوہ پیمائوں کی جانب سے باٹل نیک تک پہنچنے کو ہی مہم کی تکمیل تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم وہاں پہنچنے کے بعد چوٹی تک کا سفر تقریباً چھ سو میٹر ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ علی سدپارہ اور ساتھیوں کا آخری رابطہ باٹل نیک پر ہوا تھا اور اس کے بعد سے اب تک ان سے رابطہ منقطع ہے۔ اس وقت اس مہم کی صورتحال کے بارے میں سب سے قابل بھروسہ ابلاغ کا ذریعہ علی سدپارہ کا آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ ہے، جو اس بارے میں تفصیلات جاری کر رہا ہے۔ جس کے مطابق ’’ہم ابھی تک علی، جان سنوری اور جے پی موہر کے ساتھ رابطہ کے منتظر ہیں۔‘‘