رپورٹ:عارف انجم:
کورونا ویکسین پر ہونے والی سفاکانہ سیاست کے باعث مذہبی اور طبقاتی تقسیم اور نسل پرستی انسانیت پر غالب آچکی ہے۔ اس وقت دنیا کے صرف پانچ ممالک میں مناسب حد تک لوگوں کو ویکسین لگائی گئی ہے اور یہ تمام امیر ممالک ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غریب ممالک کو ویکسین کی فراہمی 2024ء سے پہلے نہیں ہو سکتی۔ ان ملکوں کے بیشتر شہریوں کو انتظار کرنا ہوگا۔ جبکہ بعض امیر ممالک میں بھی ویکسینشن مکمل کرنے کیلئے چار سے 9 برس درکار ہیں۔
اپنے شہریوں کو ویکسین لگانے میں سرفہرست اسرائیل ہے۔ جہاں جنوری کے وسط تک 25 فیصد آبادی کو ویکسین لگائی جا چکی تھی۔ جبکہ تخمینہ ہے کہ دو ماہ کے اندر اندر اسرائیل میں 75 فیصد آبادی کو ویکیسن لگائی جا چکی ہوگی۔ اس تیز رفتاری کا ایک سبب اسرائیل کی نسبتاً کم آبادی بھی ہے۔ جو 90 لاکھ ہے۔ دوسرا اور زیادہ اہم سبب یہ ہے کہ اسرائیل نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کو مکمل طور پر ویکیسنیشن پروگرام سے باہر رکھا ہے۔
اسرائیلی وزیر صحت یولی ایلڈرسٹائن نے اس حوالے سے بڑی بے رحمی سے کہا کہ ’’ہم دوسروں کی مدد کیلئے اپنے شہریوں کو ویکسینیشن سے محروم نہیں رکھ سکتے۔ اگر یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ سب لوگ خود کو محفوظ سمجھ سکیں تو ہم ایسا کریں گے‘‘۔ سادہ لفظوں میں اسرائیلی وزیر کا کہنا تھا کہ اگر فلسطینیوں سے کورونا پھیلنے کا خدشہ ہوا تو اس صورت میں انہیں بھی ویکیسن لگائی جائے گی۔ لیکن پہلی ترجیح اسرائیلی یہودی ہیں۔
اسی قسم کی تفریق امریکہ میں دیکھی جا رہی ہے۔ جہاں سفید فام شہریوں کو ویکسین تک ترجیحی رسائی حاصل ہے۔ امریکہ کے ٹائم میگزین نے اپنے تازہ شمارے میں انکشاف کیا ہے کہ سفید فاموں کے مقابلے میں سیاہ فام اور دوسری رنگت کے افراد کو کم ویکسین فراہم کی جا رہی ہے۔ امریکہ میں ویکیسنیشن کا انتظام ریاستی حکومتوں کے ہاتھ میں ہے۔
ٹائم میگزین کے مطابق نسل کی بنیاد پر ویکسینیشن کا رحجان کئی ریاستوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ تجزیہ ان اعدادوشمار پر مبنی ہے۔ جو ریاستوں نے خود جاری کیے ہیں۔ مثال کے طور پر ریاست ورجینیا میں سیاہ فام کل آبادی کا 21 فیصد ہیں۔ کووڈ سے مرنے والوں میں سیاہ فاموں کی شرح 24 فیصد رہی۔ لیکن ویکسین حاصل کرنے والوں میں سیاہ فام صرف 12 فیصد تھے۔
ویکسینیشن کی دوڑ میں امریکہ پانچویں نمبر پر ہے اور یہاں 3 فیصد آبادی کو ویکیسن لگائی جا چکی ہے۔ کم شرح کا سبب امریکہ کی زیادہ آبادی ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے بلوم برگ کے ایک تجزیے کے مطابق امریکہ میں تمام آبادی کی ویکسینیشن 2022ء تک مکمل ہوگی۔ شہریوں کو ویکسین فراہم کرنے کی دوڑ میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر بالترتیب متحدہ عرب امارات اور بحرین ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے چینی ساختہ سائنو فارم ویکسین اور امریکی کمپنی فائزر کی ویکیسن اپنے شہریوں کیلیے خریدی ہے۔ اماراتی حکومت نے ویکسینیشن کے لیے فعال کوششیں کی ہیں۔ تاہم امارات میں بھی طبقاتی و نسلی تقسیم غالب رہی۔ امارات نے اپنے یہاں متحدہ غیرملکی تارکین وطن کو نظراندازکرکے اپنے شہریوں کو ویکسین دینے پر توجہ مرکوز رکھی۔ امارات میں 75 فیصد آبادی کی ویکسنیشن 4 ماہ میں مکمل ہونے کا امکان ہے۔ ویکسینیشن کی دوڑ میں چوتھے نمبر پر موجود برطانیہ میں 5 فیصد سے زائد آبادی کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ برطانیہ میں 6 ماہ میں 75 فیصد آبادی کو ویکسین لگا دی جائے گی۔
یورپی یونین کے ممالک میں 75 فیصد ویکسینیشن مکمل ہونے کا تخمینہ ڈیڑھ برس سے لے کر چار برس تک کا ہے۔ فرانس دیگر یورپی ممالک سے کافی پیچھے رہ گیا ہے۔ جہاں چار برس میں ویکسینیشن مکمل ہوگی۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ناروے اور فن لینڈ جیسے ممالک میں ویکسینیشن مکمل ہونے میں تین برس لگیں گے۔ جبکہ ترکی ڈھائی برس میں اپنے تمام شہریوں کو ویکسین فراہم کر دے گا۔ ترقی یافتہ ممالک میں کینیڈا ویکیسینیشن میں سب سے پیچھے ہے۔ کینیڈا میں ویکسینیشن مکمل ہونے کا تخمینہ 9 برس لگایا جا رہا ہے۔ تاہم اس کا سبب موجودہ مشکل موسمی حالات کو قرار دیا جا رہا ہے اور مستقبل میں یہ تخمینہ تبدیل ہونے کا امکان ہے۔
جہاں بعض ترقی یافتہ ممالک میں ویکسین تمام آبادی تک پہنچنے میں تاخیر کا سبب ویکسین کی تیاری سست ہونا ہے۔ وہیں غریب ممالک کو ویکسین نہ ملنے کا سبب رقم کی کمی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے انگریزی جریدے مڈل ایسٹ آئی کے مطابق غریب ممالک کو ویکسین کی فراہمی شروع ہی 2024ء میں ہوگی۔ یہاں ویکسینیشن کا عمل کب مکمل ہو گا؟ اس بارے میں فی الوقت کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
اس وقت پوری دنیا میں کورونا ویکسین کے صرف 12 کروڑ 80 لاکھ ٹیکے لگائے جا چکے ہیں۔ یومیہ 46 لاکھ 90 ہزار ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔ جن دیگر ممالک میں ویکسینیشن جاری ہے۔ ان میں چین، روس، سعودی عرب، بھارت، عمان، برازیل، ارجنٹینا، چلی، انڈونیشیا، میکسیکو اور دیگر شامل ہیں۔