احمد نجیب زادے:
ایران کے سینئر عالم دین اورآیت اللہ کہلائے جانے والے عباس تبریزیان نے کورونا ویکسین کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ نہ توخود یہ ویکسین لگوائیں اور نہ ہی ویکسین لگوانے والے افراد کے قریب جائیں۔ کیونکہ یہ ویکسین اپنے ماخذ کی وجہ سے انسانوں میں ہم جنس پرستی کے جذبات پیدا کرتی ہے۔
واضح رہے کہ عباس تبریزیان خود اور ان کے مداح بھی ان کو ’بابائے طب اسلامی‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کا یہ غیر معمولی اور حیران کردینے والا بیان ان کے ٹیلی گرام چینل پر جاری ہوا ہے۔ عباس تبریزیان ایران کے مذہبی طبقے میں کافی مقبول ہیں اور حکومت کے قریب بھی سمجھے جاتے ہیں۔
سینئر ایرانی عالم دین تبریزیان نے ٹیلی گرام چینل پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ کورونا ویکسین انسانوں کو انسانیت کی حد سے باہر کر دیتی ہے اور انہیں ایک کنٹرولڈ روبوٹ میں تبدیل کر دیتی ہے۔ ایسے میں یہ افراد ایمان، اخلاقیات اور شائستگی سے محروم ہو جاتے ہیں اور ہم جنس پرست اورایک خطرناک مخلوق بن سکتے ہیں۔ عباس تبریزیان دعائیہ علاج کے طریقوں کو دوائوں کے ساتھ از سر نو رائج کرنے کی ضرورت پر بھی زور دے چکے ہیں۔ وہ 1994ء میں یزد میں ہونے والی ایک طب اسلامی کانفرنس کے دوران کہہ چکے ہیں کہ اگر کوئی بیماری سورہ فاتحہ سے ٹھیک نہیں ہوتی تو کسی اور دوا سے شفا نہیں ہو سکتی۔ عباس تبریزیان وہ واحد فرد نہیں جو کورونا ویکسین کی مخالفت کرچکے ہیں۔
ان سے قبل ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای بھی کورونا وائرس کو ایک حیاتیاتی ہتھیار قرار دے چکے ہیں اور ’’طب اسلامی‘‘ کے احیا کی بات کہہ چکے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اسلامی معاشرے میں ہر چیز اسلامی ہونی چاہیے۔ معیشت، مزاج، لباس، حتیٰ کہ ادویات بھی اسلامی ہونی چاہئیں۔ اپنے اولین بیانات میں عباس تبریزیان نے کورونا وائرس کو لوگوں کو انتخابات میں شامل ہونے سے روکنے کا ایک حربہ قرار دیا تھا۔
مغرب نواز میڈیا کے مطابق تبریزیان کو ایرانی قدامت پرست حکومت اور ریاستی اداروں کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ ادھر بھارت میں پھیلی نئی خبروں کے مطابق گائوں دیہات میں لاکھوں افراد نے کورونا ویکسین کو ’جی کا جنجال‘ قرار دیا ہے اور دوسروں کو خبردارکرتے ہوئے بتایا ہے کہ کورونا ویکسین لگوانے والے افراد ’نامرد‘ ہو رہے ہیں۔ بھارت کی سب سے بڑی شمالی ریاست اتر پردیش میں اپوزیشن کی سماج وادی پارٹی کے رہنما اشوتوش سنہا نے ایک ویڈیو پیغام اوران گنت تقاریر میں خبر دار کیا ہے کہ کورونا ویکسین ہرگز نہ لگوائی جائے کیونکہ یہ ویکسین بھارت کی آبادی کو کنٹرول کرنے کیلیے بنائی گئی ہے۔ جس شخص نے بھی یہ ویکسین لگوائی۔ اس کی تولیدی صلاحیت کو نقصان پہنچا ہے۔
خیال رہے کہ سماج وادی پارٹی کے سربراہ ’’ایکھ لیش یادو‘‘ بھی کورونا ویکسین سے متعلق تشویش ظاہر کرتے ہوئے اسے بی جے پی کی ویکسین قرار کہہ چکے ہیں۔ انہوں نے ویکسین پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا تھا۔ تولیدی صلاحیت کے متاثر ہونے کے دعوے پر بھارتی حکومت اور اداروں کی دوڑیں لگ چکی ہیں کیونکہ شمالی ریاستوں اتر پردی، مدھیا پردیش اور بہار سمیت ملحق خطے میں بہت بڑی تعداد میں بھارتی مردوں نے ویکسین لگوانے سے انکار کر دیا ہے۔
وزیر صحت ہرش وردھن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ویکسین کا استعمال محفوظ ہے۔ تاہم کچھ منفی اثرات جیسے ہلکا بخار، سوجن یا درد ہوسکتی ہے۔ لیکن نامردی کا کوئی چانس نہیں۔ لیکن بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ متذکرہ بالا علاقوں میں حکومتی یقین دہانی اور وضاحتوں کے باوجود کوئی بھارتی ’چانس‘ لینے پر تیار نہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل برازیلی صدر نے بھی عالمی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو انٹرویو میں کہا تھا کہ کورونا کی یورپی ویکسین ہرگز نہیں لگوائیں۔ کیونکہ ان کو اس پر تحفظات ہیں۔ برازیلی صدر ’جائر بولسو نارو‘ کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ کورونا ویکسین انسانی ڈی این اے کو بدلنے کیلئے بنائی گئی ہے۔ اس ویکسین کی وجہ سے خواتین کے ہارمونز سسٹم میں پیچیدگیاں آسکتی ہیں۔ ان کے جسم پر بال اُگ سکتے ہیں اور ان کی آوازیں مردانہ ہو سکتی ہیں۔ جبکہ مردوں کی آوازیں زنانہ ہوسکتی ہیں۔ برازیلین صدر کا سوال تھا کہ آخر ویکسین کی افادیت کا دعویٰ کرنے والی فائزر کمپنی نے اپنی ویکسین کی فراہمی کے عالمی معاہدوں میں یہ کیوں لکھوایا ہے کہ وہ کسی مضر اثرات کے ذمہ دار نہیں۔
یاد رہے کہ کورونا ویکسین کی وجہ سے عالمی ممالک بالخصوص امریکا و ناروے میں 100 سے زائد لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔ جن کی ہلاکت پر پردہ ڈالنے کیلئے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ معمر افراد تھے اور کہنہ سالی کے سبب ہلاک ہوئے۔
ادھر وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق امریکی ریاست وسکانسن کے ایک ماہر علم الادویات کو ملازمت سے فار غ کردیا گیا ہے اور اس کو پولیس نگرانی میں رکھا گیا ہے۔ میڈیا کے مطابق قصبہ گرافٹن کے فارماسسٹ اسٹیون برینڈن برگ پر الزام ہے کہ اس نے کورونا ویکسین کو انسانی ڈی این اے میں تبدیلی کا حربہ سمجھ کر اس کو ضائع کر دیا اورکسی بھی شہری کو یہ ویکسین نہیں لگائی۔
امریکی پولیس کے مطابق گرافٹن سے تعلق رکھنے والے امریکی فارماسسٹ اسٹیون برینڈن برگ پرالزام تھا کہ اس نے ماڈرنا ویکسین کی 57 بوتلیں ضائع کر دی تھیں۔ جو حکام مطابق 500 افراد کو لگانے کیلیے کافی تھی۔