رپورٹ:وجیہ احمد صدیقی:
بھارتی ریاست ہریانہ میں دیپ سدھو کو تلاش کرنے کی آڑ میں عام سکھوں کیخلاف کریک ڈائون شروع کر دیا گیا۔ اب تک متعدد سکھ گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ جبکہ پولیس نے ایک سکھ کو مفرورکہہ کر گرفتاری کا اعتراف کیا ہے اوراس کی زرعی زمین بھی ضبط کرلی گئی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق دہلی پولیس نے چندی گڑھ پولیس کے ساتھ مل کر ایک بڑا آپریشن شروع کیا۔ جس میں کئی سکھوں کو گرفتار کیا گیا۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے سنٹرا مال لائٹ پوائنٹ سے ایک شخص کو گرفتار کیا ہے۔
سکھ تنظیموں کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ سینکڑوں سکھ غائب ہیں۔ صرف 100 کے قریب سکھوںکے بارے میں علم ہوا ہے کہ وہ پولیس کی حراست میں ہیں۔ ادھر جس وقت ہریانہ میں چھاپے مارے جا رہے تھے، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے متنازعہ زرعی قوانین واپس نہ لینے کا اعادہ کیا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ جو لوگ سکھوں کے خلاف برے الفاظ استعمال کر رہے ہیں، وہ اچھا نہیں کر رہے۔
مودی کی تقریر سن کر ایک سکھ نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ’’اگر یہ سچ ہے تو ہمیں اغوا کرنا اور قتل کرنا بند کرو۔ تمام سکھ قیدیوں کو رہا کرو۔ جن کو بھارتی حکومت نے غیر قانونی طور پر قید کر رکھا ہے۔ سکھ اور دیگر اقلیتوں کو بھارت میں ناانصافی کے خلاف بولنے پر قید کرلیا جاتا ہے۔ ہمیںآپ کی یہ منافقانہ اور جعلی ہمدردی نہیں چاہیے۔ کیونکہ آپ سکھ آبادی کو تحفظ ہی نہیں دینا چاہتے‘‘۔
یاد رہے کہ دہلی کی تہاڑ جیل میں 80 سالہ گرمکھ سنگھ اور 70 سالہ جیت سنگھ بھی قید ہیں۔ اس کے علاوہ 25 سالہ نودیپ کور بھی قید میں بھارتی پولیس کی زیادتیوں کا شکار ہے۔
راجیہ سبھا میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایم ایس پی کے متعلق کہا کہ ’’ایم ایس پی تھا، ایم ایس پی ہے، اور ایم ایس پی رہے گا‘‘۔ لیکن مودی کے اس بیان کی کسان لیڈر اور کسان تحریک کے ترجمان راکیش ٹکیت نے ایک ٹوئٹ کے ذریعہ قلعی کھول دی ہے۔ راکیش ٹکیت نے نریندر مودی کے بیان کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے اپنا تازہ ٹوئٹ کیا کہ ’’ایم ایس پی دو ریاستوں کے علاوہ نہ تھا، نہ ہے، نہ رہے گا‘‘۔ اس جملے سے ظاہر ہے کہ راکیش ٹکیت نے مودی کا نام لیے بغیر اپنے مطالبات کو واضح کر دیا ہے کہ ایم ایس پی پر قانون بنایا جائے۔ تاکہ پورے ملک میں ایم ایس پی پر اناج کی خریداری ہو۔
اس ٹوئٹ میں راکیش ٹکیت نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ملک کو گمراہ نہ کریں‘‘۔ انہوں نے مودی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ایم ایس پی پر قانون بنادو۔ تینوں متنازعی زرعی قوانین واپس لے لو تو ہم احتجاج ختم کردیں گے۔ اگر نریندر مودی بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں۔ لیکن ہمارا پہلے دن سے ہی یہ مطالبہ ہے کہ بلوں کو واپس لو اور ایم ایس پی پر قانون بنائو‘‘۔
ادھر بھارت کے نامور کرکٹرز سچن ٹنڈولکر اور ویرات کوہلی سمیت بعض اہم شخصیات نے امریکی پاپ اسٹار ریحانہ کے اس ٹوئٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جس میں اس نے کسانوں کے دھرنے کی حمایت اور انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ریحانہ کے اسی ٹوئٹ کے بعد بھارتی اسپورٹس مین اس کے خلاف کود پڑے اور ریحانہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جوابی ٹوئٹ کیا۔ تاہم آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے رکن اور ممبئی کانگریس کے ترجمان سچن ساونت نے الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی کے دبائو میں آکر ان لوگوں نے ٹوئٹ کیے ہیں۔
اس تنقید پر نوٹس لیتے ہوئے مہاراشٹر کے وزیر داخلہ اور این سی پی لیڈر انل دیش مکھ نے کہا ہے کہ ریاست کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس معاملے میں جانچ کرکے سچائی کا پتہ لگائیں گی۔ ممبئی کانگریس کے ترجمان سچن ساونت نے الزام لگایا ہے کہ اس کام کیلئے بی جے پی کی جانب سے ان لوگوں کو اسکرپٹ دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’’اکشے کمار اور سائنا نہوال نے ایک جیسے ٹوئٹ کیے ہیں۔ دونوں کے الفاظ ایک جیسے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سب کے پیچھے بی جے پی ہے۔ اداکار سنیل شیٹی نے ایک بی جے پی لیڈر کو ٹیگ بھی کیا ہے۔ اس سے بی جے پی کا کردار صاف نظر آجاتا ہے۔ پارٹی (بی جے پی) کی بی سی سی آئی میں بھی رسائی ہے اور اسی لیے شاید کچھ کرکٹرز نے بھی ایک ہی طرح کے ٹوئٹ کیے‘‘۔
سچن ساونت نے کہا کہ ’’اگر یہ ہستیاں دبائو میں ہیں تو انہیں ریاست کی جانب سے سیکیورٹی دی جانی چاہیے۔ ایک ایسا وقت تھا جب بالی ووڈ پرانڈر ورلڈ کی جانب سے دبائو ڈالا جاتا تھا۔ لیکن موجودہ وقت میں ایسے دبائو کے معنی بالکل بدل گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کھلاڑیوں پر بی سی سی آئی کی طرف سے دبائو ہے۔ بالی ووڈ پر بھی دبائو ہے اور اس کی جانچ کی جانی چاہیے۔ جانچ کے لیے حکم دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ اور یہ پتہ لگانے کی ضرورت ہے کہ ان لوگوں پر کون دبائو ڈال رہا ہے‘‘۔
یاد رہے کہ سکھوں کے ساتھ ہمدردی جتانے والے مودی کی حکومت نے سوشل میڈیا کے اہم ترین کردار ٹوئٹر کو کہا کہ اس کے ایک ہزار 178اکائونٹ خالصتانی ہیں۔ تاہم اس پر ٹوئٹر کے بانی نے جو جواب دیا۔ اس سے بھارتی حکومت روٹھ گئی ہے۔ ٹوئٹر کے بانی جیک ڈیسی نے کسانوں کے حق میں ٹوئٹس کو جانے دیا۔ جس پر بھارتی حکومت نے سوالات اٹھائے۔ مگر ٹوئٹر کے بانی نے اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنے کے لیے بھارتی حکومت کا مطالبہ نہیں مانا۔ 1,178 اکائونٹس کے بارے میں بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ پاکستان اور دیگر غیر ملکوں سے چلائے جارہے ہیں اور یہ خالصتانی ہیں۔ ٹوئٹر پہلے ہی بھارتی حکومت کے مطالبے پر 257 اکائونٹ بلاک کرچکا تھا۔ لیکن بھارتی حکومت کے مطالبات بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔