کوہ پیما محمد علی سدپارہ کا تعلق گلگت بلتستان کے علاقہ اسکردو کے ایک گاؤں سدپارہ سے ہے۔ وہاں سدپارہ نام سے ایک مشہور جھیل بھی ہے۔ اس گاؤں کی نسبت سے محمد علی اپنے نام کے ساتھ سدپارہ لکھتے ہیں۔
محمد علی سدپارہ اپنے بیٹے ساجد سدپارہ، چلی سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما جے پی موہر اور آئس لینڈ کے جان سنوری کے ہمراہ 5 فروری کو کے ٹو سر کرنے چلے تھے لیکن چوٹی کے قریب سب سے خطرناک مرحلے یعنی باٹل نیک پہنچنے پر ساجد سدپارہ کے آکسیجن سلینڈر میں خرابی پیدا ہوگئی جس پر ان کو وہیں رکنا پڑا جبکہ ٹیم کے باقی 3 افراد نے مشن جاری رکھا۔
ساجد نے واپس کیمپ 4 میں آکر کئی گھنٹے تک اپنے والد اور ساتھی کوہ پیماؤں کا انتظار کیا لیکن جب بیس گھنٹے بعد بھی وہ نہ آئے تو ساجد سدپارہ واپس بیس کیمپ آگئے۔ اس کے بعد سے مسلسل ریسکیو آپریشن جاری ہے مگر تاحال تینوں کوہ پیماؤں کا پتہ نہ لگ سکا۔
محمد علی سدپارہ نے فروری 2016 میں جب پہلی مرتبہ موسم سرما کے دوران نانگا پربت سر کیا تو الپائنسٹ میگزین نے ان کے اوپر ایک خصوصی شائع کیا۔ اس مضمون میں محمد علی سدپارہ کے بچپن سے لیکر کوہ پیما بننے تک کے سفر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
میگزین رپورٹ کے مطابق محمد علی سدپارہ کو ان کی والدہ نے 6 سال کی عمر تک چھاتی کا دودھ پلایا اور دیگر غیر صحتمندانہ غذاؤوں سے دور رکھا۔ اس کے باعث محمد علی سدپارہ سخت جان اور مضبوط اعصاب کے مالک تو بن گئے مگر ماں کی اس محبت کے پیچھے کہانی کچھ اور تھی۔
محمد علی سدپارہ 2 فروری 1976 کو سدپارہ کے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جس میں 8 بچے پیدا ہوتے ہی دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ جب محمد علی سدپارہ پیدا ہوا تو چھوٹی عمر میں 8 بچوں کی دفنانے والی ماں نے اسے ہر نشیب و فراز سے بچائے رکھا۔ یہاں تک 6 سال تک انہیں اپنا دودھ پلایا تاکہ دیگر غذاؤوں کے باعث لاحق ہونے والی بیماریوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔
اس بارے میں محمد علی سدپارہ نے خود میگزین کو بتایا کہ ’میری والدہ کے دودھ نے مجھے پہاڑوں پر چڑھنے کی طاقت فراہم کی ہے۔‘ یہی وجہ تھی کہ محمد علی سدپارہ کیلئے پہاڑوں پر چڑھنا کوئی زیادہ مشکل یا انوکھا کام نہیں بلکہ ’معمول‘ تھا۔
انیس سال کی عمر میں محمد علی سدپارہ نے شادی کرلی تو ان پر معاشی دباؤ بڑھ گیا۔ اس لیے انہوں نے اپنا روزگار ہی پہاڑوں سے وابستہ کرلیا۔ وہ غیر ملکی کوہ پیماؤں کے ساتھ بطور پورٹر کام کرتے اور 25 کلو وزن لیکر بیس کیمپ تک پہنچاتے۔ اب پہاڑوں پر چڑھنا شوق کے ساتھ روزگار بھی بن گیا تھا۔
محمد علی سدپارہ نے میگزین کو اپنا ایک دلچسپ تجربہ بھی بتایا۔ وہ کہتے ہیں کہ پورٹر کے طور پر کام شروع کرتے ہوئے یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا کہ بعض پورٹرز کچھ چیزیں اٹھانے سے انکار کردیتے تھے، اس میں خاص طور پر کیروسین شامل تھا۔ میں یہ سوچتا تھا کہ شاید تمباکونوشی کرنے والے پورٹرز کو آگ لگنے کا خوف لاحق ہے۔ اس لیے میں ان ڈبوں کو اچھی طرح چیک کرتا کہ کہیں لیک تو نہیں، پھر خود ہی اٹھالیتا تھا۔
مگر کچھ عرصہ بعد محمد علی کو اندازہ ہوا کہ خطرناک پہاڑوں پر چڑھتے ہوئے جب ڈبوں کے اندر ایندھن ہلتا رہتا ہے تو کتنی مشکل صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ تب انہیں اندازہ ہوا کہ دیگر پورٹرز اس طرح کا سامان اٹھانے سے انکار کیوں کرتے تھے۔
محمد علی بطور پورٹر سدپارہ غیرملکی کوہ پیماؤں کا سامانا اٹھائے بلتورو گلیشیئرز پر قینچی والی چپل پہن کر چلتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ بطور پورٹر کام شروع کرکے دوسرے دن ہم گلیشیئرز پر چل رہے تھے اور ان کے چچا حسن بھی ساتھ تھے۔ علی سدپارہ کے عینک گرگئے اور انہیں پتہ نہیں چلا مگر چچا نے دیکھ لیا اور عینک اٹھاکر اپنے پاس چھپاکر رکھ لیے۔
مگر ایک مقام پر پہنچ کر جب برفیلی ہوائیں چلنی لگی تو محمد علی سدپارہ کو احساس ہوا کہ عینک غائب ہے۔ انہوں نے اپنے سامان میں ڈھونڈنا شروع کیا اور نہ پاکر مایوس ہوا تو چچا حسن نے انہیں عینک واپس کرکے خبردار بھی کیا کہ آئندہ ایسی غلطی کبھی نہ کرنا۔ اسی طرح محمد علی نے بطور پورٹر کام جاری رکھا۔
محمد علی سدپارہ نے سیاچن میں پاک فوج کے ساتھ بھی بطور پورٹر کام کیا۔ اس بارے میں انہوں نے ایک واقعہ بھی بتایا ہے۔ سیاچن گلیشیئر پر فوجی جوانوں کو روزمرہ اشیا کی سپلائی کیلئے جب پاک فوج نے اسکردو میں مقامی لوگوں کو بھرتی کیا تو ان کیلئے بڑا چیلنج رات میں سفر کرنا تھا۔ دن میں دشمن کے مارٹر گولوں کا خدشہ لاحق رہتا تھا۔ اس لیے رات میں دوران سفر بھی ہرقسم روشنی ممنوع تھی۔
انہوں نے اپنے چچا کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کس طرح ان پہاڑوں پر ایک چھوٹی غلطی کا بڑا خمیازہ بھتگنا پڑتا ہے۔ اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاستا ہے۔ علی سدپارہ کے مطابق وہ سیاچن پر فوجی جوانوں کا سامان لیکر جارہے تھے کہ ایک پورٹر نے سگریٹ جلائی۔ چند لمحوں میں ہمارے ارد گرد مارٹر گولے برسنے لگے۔ تھوڑا فاصلے پر ہونے کے باعث علی سدپارہ محفوظ رہے مگر ایک ٹینٹ کو گولہ لگنے سے ان کے دو ساتھی جاں بحق ہوگئے۔
سیاچن پر خدمات سرانجام دینے کے بعد محمد علی سدپارہ نے کوہ پیما بننے کا فیصلہ کیا۔ اس بارے میں وہ خود کہتے ہیں کہ ’سیاچن کے بعد میرا خوف مکمل ختم ہوگیا تھا کیوں کہ پہاڑوں پر چڑھنے کے دو ہی نتائج نکل سکتے ہیں۔ زندگی یا موت، اور آدمی کو یہ دونوں امکانات تسلیم کا حوصلہ ہونا چاہیے۔‘
والدہ ان کو گھر میں رہ کر اپنی کھیتی باڑی پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر محمد علی سدپارہ کا جواب تھا کہ ’پہاڑ مجھے بلا رہے ہیں۔ اگر باہر ممالک سے لوگ پیسہ خرچ کرکے پہاڑوں پر چڑھنے کیلئے آتے ہیں تو میں ان کی مدد کیوں نہ کروں۔‘
محمد علی سدپارہ 2006 سے لیکر 2015 تک کوہ پیماؤں کے ساتھ ٹیم ممبر کے طور پر کام کرتے رہے اور اس دوران انہوں نے دیگر کوہ پیماؤں کے ہمراہ نانگا پربت، گیشربرم ون اور گیشربرم ٹو کو موسم گرما میں سر کرلیا۔ وہ کے ٹو پر بھی ’باٹل نیک‘ تک پہنچ گئے تھے مگر وہ چونکہ بطور اسٹاف ممبر گئے تھے، اس لیے دیگر کوہ پیماؤں کیلئے انتظامات کرنے کی وجہ سے انہیں واپس اترنا پڑا۔ ان کی پہلی ترجیح اپنے ساتھ جانے والے کوہ پیماؤں کی حفاظت ہوتی تھی، اس لیے وہ اپنی خواہش دل میں ہی دبا کر رکھتے۔
آٹھ بچوں کو کھونے والی ماں اس دوران محمد علی سدپارہ کو کوہ پیمائی چھوڑنے پر راضی کرنے کی مسلسل کوشش کرتی رہیں اور پھر 2012 میں محمد علی سدپارہ کا بچپن کا دوست نثار حسین گیشربرم ون پر غائب ہوگیا تو پورا گاؤں نہ صرف سوگ میں ڈوب گیا بلکہ علی سدپارہ پر بھی یہ کام چھوڑنے کیلئے دباؤ بڑھ گیا۔ نثار حسین اپنے پیچھے بیوی، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں چھوڑ گئے۔ علی سدپارہ خود تین بچوں کا باپ تھا۔ اس نے اپنی اہلیہ فاطمہ کی بات سنی جس نے خاموشی سے اپنے خوف کا اظہار کیا مگر والدہ نے تیز آواز میں کہا یہ کام بہت خطرناک ہے۔
مگر علی سدپارہ کیلئے کوہ پیمائی چھوڑ کر کھیتی باڑی کرنا مشکل تھا۔ اس لیے انہوں نے والدہ کو یقین دہانی کروائی کہ یورپی ممالک سے آنے والے کوہ پیما انہیں شدید سردی میں جمنے نہیں دیتے۔ وہ ہمارے لیے بھی اچھے ٹینٹ، دستانے اور سوٹ لیکر آتے ہیں۔‘
محمد علی سدپارہ جنوری 2015 میں گھر میں بہانہ کرکے موسم سرما میں نانگا پربت سر کرنے کے مشن پر نکلے۔ اس ’دھوکے‘ پر علی سدپارہ خود پریشان تھے لیکن ان کو یہ فکر لاحق تھی کہ بیمار والدہ کو اصل بات پتہ چلی تو وہ زیادہ پریشان ہوجائیں گی۔
انہوں نے منفی 47 ڈگری میں مہم جوئی جاری رکھی اور چوٹی سے تقریبا 300 میٹر نیچے تیز برفانی ہواؤں کی زد میں آکر محمد علی سدپارہ کی یادداشت کھوگئی۔ اس وقت کو یاد کرکے محمد علی کہتے تھے ’میں نے گرمیوں میں دو بار نانگا پربت سر کیا اور سوچا تھا کہ میں اس سے واقف ہوں اس وقت میرے دماغ میں موجود نقشہ ہی مٹ گیا تھا۔‘
محمد علی سدپارہ کے ساتھ دو غیر ملکی کوہ پیما بھی تھے۔ جنہیں خدشہ تھا کہ محمد علی کی کا یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کرسکتا ہے۔ ایک ہفتہ محمد علی گھر والوں کو پوری بات بتانے کا ارادہ کرکے گاؤں پہنچا تو ان کی والدہ آخری سانسیں لے رہی تھیں۔ سدپارہ نے آخری سانس تک ان کی خدمت کی اور نانگا پربت جانے اور وہاں پیش آنے والے واقعہ کو ان سے چھپائے رکھا۔