واپسی کے سفر میں بھی نظریں چوٹی کی طرف پلٹ جاتی ہوں گی- اطالوی جریدے کی دلگیر منظر کشی- کے ٹو سے منہ موڑ کر سکون ڈھونڈوں گی- زندہ بچنے والی خاتون کوہ پیما کا لاپتہ کوہ پیماؤں کے نام خط- بیس کیمپ ویران ہونے لگا
واپسی کے سفر میں بھی نظریں چوٹی کی طرف پلٹ جاتی ہوں گی- اطالوی جریدے کی دلگیر منظر کشی- کے ٹو سے منہ موڑ کر سکون ڈھونڈوں گی- زندہ بچنے والی خاتون کوہ پیما کا لاپتہ کوہ پیماؤں کے نام خط- بیس کیمپ ویران ہونے لگا

’’ساجد سدپارہ 20 گھنٹے باپ کی راہ دیکھتا رہا‘‘

رپورٹ: عارف انجم
’’کے ٹو نے اپنا امتحان لے لیا‘‘۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی پر دو کوہ پیماؤں کی مصدقہ ہلاکت اور علی سد پارہ سمیت تین کے لاپتہ ہونے پر اطالوی جریدے ’’مونتانیہ‘‘ نے اپنا مضمون ان الفاظ کے ساتھ شروع کیا۔ کے ٹو پر ایک ماہ کے اندر پیش آنے والے سانحات میں اٹلی اور اسپین کے جرائد غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان دونوں ممالک میں کوہ پیمائی کا شوق پایا جاتا ہے اور بہت سے کوہ پیما یہیں سے آتے ہیں۔ پرخطر مہم جوئی اور نقصانات یہاں کے قارئین کے لیے اجنبی نہیں۔
تاہم کوہ پیمائی سے متعلق آن لائن اطالوی جریدے مونتانیہ نے علی سد پارہ کے لاپتہ ہونے کے بعد ان کے نوجوان بیٹے ساجد سد پارہ کے، کے ٹو پر قیام اور واپسی کی جو منظرکشی کی ہے۔ وہ خاصی دلگیر ہے۔ ساجد سدپارہ بھی اپنے والد کے ساتھ کے ٹو سر کرنے کی مہم میں شریک تھے۔ لیکن آکسیجن ماسک کا ریگولیٹر خراب ہونے کے سبب وہ پہاڑ پر ’’بوٹل نیک‘‘ نامی مقام سے آگے نہیں جا سکے تھے۔ جو کے ٹو کی چوٹی سے صرف 400 میٹر نیچے ہے۔ علی سد پارہ اور دیگر دو کوہ پیماؤں چلی کے جوآن پابلو موہر اور آئس لینڈ کے جان سنوری کے لاپتہ ہونے کی سب سے پہلی اطلاع ساجد سدپارہ نے دی تھی۔ ساجد سدپارہ نے دنیا کے سامنے بے مثال ہمت دکھائی ہے۔ تاہم ان پر جو قیامت گزری۔ اس کا حال مونتانیہ نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا۔ جریدے نے لکھا کہ آکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے کے بعد ’’ساجد سدپارہ بوٹل نیک سے نیچے کا سفر شروع کرتے ہیں اور کیمپ تھری پر آکر رک جاتے ہیں۔ انہیں اپنے والد اور ان کے دو ساتھیوں کا انتظار ہے۔ بیس گھنٹے تک وہ اوپر دیکھتے رہتے ہیں کہ امید کی کوئی کرن دکھائی دے جائے۔ پہاڑ پر ایک چھوٹا سا نقطہ پہاڑ کی سیاہی کے سامنے چمکتا ہے۔ ہم تصور ہی کر سکتے ہیں کہ اس وقت ساجد نے کیا محسوس کیا ہوگا۔ جب 6 فروری کی صبح اس نے اپنے ٹینٹ کی زپ بند کی اور کے ٹو کی چوٹی پر نظر ڈالتے ہوئے بیس کیمپ کی طرف تکلیف دہ سفر شروع کیا۔ اب وہ تنہا تھے۔ وہ بار بار رکے ہوں گے۔ مڑ کر پیچھے دیکھا ہوگا کہ شاید تینوں کوہ پیماؤں کی کوئی جھلک نظر آجائے۔ پھر دوبارہ وہ نیچے کا سفر شروع کردیتے ہوں گے‘‘۔
ساجد سد پارہ نے کیمپ تھری پر ایک پوری رات سمیت 20 گھنٹے اپنے والد اور ان کے ساتھیوں کی واپسی کا انتظار کیا تھا۔ کیمپ تھری 7350 میٹر کی بلندی پر ہے۔ ساجد کے مطابق انہوں نے اپنے ٹینٹ کی روشنی رات بھر جلائے رکھی۔ تاکہ اگر والد لوٹیں تو انہیں تلاش میں مشکل نہ ہو۔ علی سدپارہ اور دیگر نے چوٹی سر کرنے کے بعد 5 فروری کی شب 10 یا 11 بجے کیمپ تھری پر واپس پہنچ جانا تھا۔ جہاں ساجد ان کے لیے چائے تیار کرنے کا انتظام کیے بیٹھے تھے۔ لیکن پھر 11 بجے کے بعد ساجد سدپارہ کا وہ تکلیف دہ انتظار شروع ہوا۔ جس کا مونتانیہ نے ذکر کیا ہے۔ بالآخر موسم خراب ہونے کے بعد ساجد کو بیس کیمپ کی طرف اترائی شروع کرنا پڑی۔
جان سنوری کے ملک آئس لینڈ میں سب سے بڑے اخبار frettabladid میں نمایاں ترین کوریج کے ٹو کے بارے میں ہی ہے۔ جریدے نے جان سنوری کی اہلیہ لینا موئے کا بیان شائع کیا۔ جن کا کہنا تھا کہ وہ ابھی مایوس نہیں ہوئیں اور انہیں پوری امید ہے کہ جان سنوری گھر واپس لوٹیں گے۔ لینا موئے نے کہا ’’میرا دل کہتا ہے کہ معجزہ ہو گا اور وہ واپس آئے گا۔ میں نے امید نہیں چھوڑی۔ اور میں جانتی ہوں کہ معجزے ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ابھی ایک ہفتہ نہیں ہوا۔ بیس کیمپ ہفتے تک لگا رہے گا‘‘۔
تاہم کے ٹو کے قریب پانچ ہزار میٹر بلندی پر لگا بیس کیمپ اب ویران ہو رہا ہے۔ یہاں سے بیشتر غیرملکی کوہ پیما جا چکے ہیں۔ روانہ ہونے والوں میں ایک اطالوی خاتون کوہ پیما تمارا لنگر بھی شامل تھیں۔ تمارا لنگر لاپتہ ہونے والے پابلو کی کلائمنگ پارٹنر تھیں۔ پابلو پہلے ہسپانوی کوہ پیما سرگئی منگوتے کے ساتھ مل کر چڑھائی کر رہے تھے۔ لیکن جب 16 جنوری کو منگوتے گر کر ہلاک ہوگئے تو انہوں نے تمارا کو کلائمنگ پارٹنر بنایا تھا۔ لیکن تمارا راستے میں ہی ہمت ہار بیٹھیں اور مہم چھوڑ کر بیس کیمپ لوٹ آئی تھیں۔ 9 فروری کو پابلو کی 34 ویں سالگرہ تھی۔ اسی دن تمارا واپسی کی تیاری کر رہی تھیں۔ انہوں نے پابلو اور دیگر کوہ پیماؤں کے نام ایک جذباتی خط لکھا۔ تمارا نے لکھا ’’آج تمہاری سالگرہ ہے۔ ہم نے جشن منانے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن اب میں گنگ بیٹھی ہوں۔ آنکھوں میں آنسو اور بہت سے سوالات ہیں۔ جانتی ہوں کہ تمہیں دوبارہ دیکھنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘‘۔ پابلو کی مدد اور نرمی کی تعریف کرنے کے بعد تمارا لکھتی ہیں ’’میرا دل علی اور جان کے لیے بھی روتا ہے۔ اس بار اس پہاڑ نے مجھ سے بہت کچھ چھین لیا ہے۔ یہ مہم سب سے زیادہ ظالمانہ ثابت ہوئی ہے۔ ایک ایسا تجربہ جو ایک سہانے خواب سے شروع ہوا تھا اور ایسے بھیانک خواب میں تبدیل ہوگیا جسے میں طویل عرصے تک بھلا نہیں سکوں گی۔ آگے بڑھنے کے لیے اب زور لگانا پڑے گا۔ مشکل ہوگا۔ لیکن میں کوشش کروں گی۔ میں یہیں سے شروع کرتی ہوں۔ میں کے ٹو سے منہ موڑ کر سکون ڈھونڈنے کی کوشش کروں گی‘‘۔
اس پیغام کے ساتھ تمارا رخصت ہوگئیں۔ ان کا یہ پیغام بھی اطالوی اور ہسپانوی میڈیا میں وائرل ہو رہا ہے۔ اسپین کے جریدے ایل کانفیڈینشل نے لکھا، کے ٹو کا بیس کیمپ ویران ہو چکا ہے۔ ’’سیون سمٹ ٹریک‘‘ سے وابستہ کوہ پیما چلے گئے ہیں اور اب صرف چند مقامی لوگ یہاں رہ گئے ہیں تاکہ لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے تعاون فراہم کر سکیں۔ ان میں ایک باورچی، ایک افسر اور جیسمین ٹوورز سے وابستہ دو کوہ پیما ہیں۔ یہ کوہ پیما بھی اکبر اور امتیاز ہیں۔ جو علی سد پارہ کے عزیز ہیں۔