ایک مرتبہ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ بیت المقدس تشریف لے گئے۔ مسجد عمرؓ میں رات بھر عبادت کرنے کے شوق میں یہ ایک بورے میں چھپ کر پڑے رہے، کیوں کہ اس مسجد میں رات کو کوئی ٹھہر نہیں سکتا تھا۔ انہوں نے یہاں کئی راتیں عبادت میں گزار دیں، لیکن نمازوں میں وہ مزہ نہ آیا جو پہلے آیا کرتا تھا۔ یہ روتے روتے بے حال ہو جاتے اور رب تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرتے کہ خدایا! اس ناچیز سے کون سا گناہ سرزد ہو گیا ہے، جس سے نالۂ شبی اور سحر گاہی کا مزہ جاتا رہا، اس بے کیفی میں چالیس شب و روز گزر گئے
۔ایک شب ابھی یہ بورے سے نکلے بھی نہ تھے کہ خلاف معمول مسجد کا دروازہ کھلا اور تقریباً چالیس اکتالیس کمبل پوش مسجد میں داخل ہوئے، ان میں ایک امام بنا اور بقیہ مقتدی۔ انہوں نے نماز پڑھی، اس کے بعد جو امام تھا، وہ محراب کی طرف پشت کر کے بیٹھ گیا اور مقتدی حضرات اس کے سامنے بیٹھ گئے، ان میں سے ایک شخص نے محسوس کیا اور کہنے لگا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے علاوہ بھی یہاں کوئی موجود ہے۔ امام نے مسکراتے ہوئے کہا ہاں! یہاں ابراہیم بن ادہمؒ موجود ہے اور چالیس دن بے کیف عبادت میں گزار چکا ہے، یہ سن کر حضرت ابراہیمؒ بورے سے نکل کر اس بزرگ کے روبرو کھڑے ہو گئے اور لجاحت سے دریافت کیا: حضرت! میں آپ سے متعارف تو نہیں ہوں، لیکن یہ ضرور جان گیا ہوں کہ آپ روشن ضمیر ہیں، کیوں کہ آپ نے میری عبادت اور اس کی بے کیفی کی بابت جو ارشاد فرمایا وہ بالکل درست ہے، خدا کے لیے اب یہ بھی بتا دیں کہ ایسا کیوں ہے؟ بزرگ نے جواب دیا، بیت المقدس آنے سے پہلے آپ نے بصرہ میں ایک پھل فروش سے پھل خریدے تھے، تمہارے پھلوں میں غلطی سے ایک پھل ایسا بھی شامل ہو گیا تھا جو کہ تول کے علاوہ تھا اور تم نے اپنے خرید ہوئے پھلوں کے ساتھ ایک اضافی پھل بھی کھا لیا تھا اور اب وہی پھل تمہاری عبادت اوراس کی لذت میں فتور پیدا کر رہا ہے۔
حضرت ابراہیمؒ نے علی الصباح بیت المقدس چھوڑ دیا اور بصرہ روانہ ہو گئے، وہاں پہنچ کر پھل فروش سے ملے اور اصل واقعہ بیان کیا اور کہنے لگے یا تو تم اس پھل کی قیمت مجھ سے لے لو، یا پھر اسے معاف کر دو، پھل فروش حضرت ابراہیمؒ کی اس کیفیت سے بہت متاثر ہوا، اس نے نہ صرف انہیں معاف کر دیا، بلکہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر حضرت ابراہیمؒ کے ارادت مندوں میں شامل ہو گیا۔