ان کوہ پیمائوں میں برطانوی خاتون کوہ پیما الیسون شامل تھیں-فائل فوٹو 
ان کوہ پیمائوں میں برطانوی خاتون کوہ پیما الیسون شامل تھیں-فائل فوٹو 

’’تیز ہوا نے کے ٹو سے 6 کوہ پیمانیچے پٹخ دیے تھے‘‘

رپورٹ:عارف انجم/ وجیہ احمد صدیقی:
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے کو مشکل ترین اس لیے تصور کیا جاتا ہے کہ چوٹی تک پہنچنے کے راستے میں خطرناک چٹانیں، کھائیاں اور ناقابل اعتبار گلیشئرز ہیں۔ لیکن ان سب کے علاوہ محض ہوا بھی جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے اور بعض اوقات ہولناک حادثات کا سبب بنتی ہے۔1995ء میں کے ٹو سر کرنے والے 6 کوہ پیما نہ تو اپنی کسی غلطی کی وجہ سے اور نہ ہی گلیشیئر ٹوٹنے یا برفانی تودے گرنے سے موت کا شکار ہوئے۔ یہ تمام کامیابی سے کے ٹو سر کرچکے تھے جس کے کچھ ہی دیر بعد تیز ہوا نے 8 ہزار 600 میٹر (28 ہزار فٹ) کی بلندی سے نیچے پٹخ دیا۔
علی سد پارہ اور ان کے ساتھیوں کو پیش آنے والے ممکنہ حادثے کے بارے میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔ لیکن یہ خدشہ موجود ہے کہ علی سدپارہ، جان سنوری اور ہوان پابلو کے ساتھ وہی صورت حال پیش آئی ہو جو 1995ء میں برطانیہ، امریکہ، اسپین اور نیوزی لینڈ کے 6 بدقسمت کوہ پیماؤں کو پیش آئی تھی۔ کینیڈا سے تعلق رکھنے والا ایک ساتواں کوہ پیما چوٹی کے قریب سے واپس لوٹنے کے سبب اس وقت تو زندہ بچ گیا۔ لیکن بعد میں طوفانی ہواؤں کے اثرات کے سبب دم توڑ دیا۔ جب کہ ایک آٹھویں کوہ پیما نے کیمپ فور سے ہی بروقت واپسی کا فیصلہ کیا اور زندہ رہا۔ دو دیگر کیمپ فور سے بر وقت نیچے روانہ نہ ہونے کے سبب فراسٹ بائیٹ کا شکار ہوئے۔
مرنے والوں میں ایک غیر معمولی بہادر اور ماہر برطانوی خاتون کوہ پیماہ الیسون ہارگریوز تھیں۔ 33 برس کی الیسون نے 1995ء میں ہی ایورسٹ کسی شِرپا کی مدد کے بغیر سر کی تھی۔ اس کے بعد الیسون کے ٹو سر کرنے کیلئے پہنچی۔ یہاں اس نے امریکی ٹیم کے ساتھ مل کر کوہ پیمائی کا فیصلہ کیا۔ تاہم امریکی ٹیم میں شامل کوہ پیما ہمت ہارتے چلے گئے۔ صرف الیسون اور امریکی ٹیم کے راب سلیٹر رہ گئے۔ یہ جب 8 ہزار میٹر کی بلندی پر واقع کیمپ فور پہنچے تو وہاں ان کے ساتھ نیوزی لینڈ اور کینیڈا کی ٹیموں کے کوہ پیما بھی آملے۔ کچھ دیر بعد ہسپانوی کوہ پیما بھی پہنچ گئے۔ کیمپ فور کے ٹو کا بلند ترین اور آخری کیمپ ہے۔ اس کے بعد کوہ پیماؤں کو آرام کرنے کیلئے مزید کوئی جگہ میسر نہیں آتی۔ 13 اگست کی شام برطانیہ کی الیسون، امریکہ کے راب سلیٹر، اسپین سے تعلق رکھنے والے خاویئر اسکارٹن، خاویئر اولیور اور لورینزو اوریز، نیوزی لینڈ کے بروس گرانٹ اور کینیڈا سے تعلق رکھنے والے جیف لیکس نے چوٹی کی طرف نکلنے کا فیصلہ کیا۔
اس وقت موسم اچھا تھا۔ لیکن اس کے باوجود نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے پیٹر ہیلری نے واپسی کا فیصلہ کرلیا۔ پیٹر ہلیری کے والد ایڈمنڈ ہیلری نے سب سے پہلے ایورسٹ سر کی تھی۔ پیٹر کا کہنا تھا کہ چار پانچ دن سے سازگار رہنے والا موسم تبدیل ہونے کے امکانات ہیں۔ باقی سات کوہ پیما اوپر روانہ ہوئے لیکن کچھ دور جا کر کینیڈین جیف لیکس نے بھی آگے بڑھنے کے بجائے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔ جیف لیکس باٹل نک سے واپسی آئے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں سے ساجد سدپارہ آکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے کے سبب لوٹے تھے۔ دیگر چھ لوگوں نے چڑھائی جاری رکھی۔ واضح رہے کہ بیشتر کوہ پیما کے ٹو پر چڑھائی رات کے وقت کرتے ہیں تاکہ نیچے اترنے کے لیے ان دن کی روشنی مہیا رہے۔ کے ٹو پر زیادہ حادثات اترتے وقت پیش آتے ہیں۔
الیسون، راب، اسکارٹن، اولیور، لورینزو اور بروس بغیر کسی مشکل کا شکار ہوئے چوٹی پر پہنچ گئے۔ ان کا مقصد پورا ہو چکا تھا۔ وہ کے ٹو کے فاتح بن چکے تھے، لیکن ’’خونیں پہاڑ‘‘کو سر کرنے والوں کی خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ کچھ ہی دیر میں 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہوائیں چلنے لگیں۔ اس وقت کے ٹو سر کرنے والے تمام چھ کوہ پیما واپسی کا سفر اختیار کرچکے تھے۔14 اگست کی صبح ہونے سے قبل تیز ہوا کے ٹو کی چوٹی سے انہیں اپنے ساتھ اڑا لے گئی۔
اگلی صبح یعنی 14 اگست کو اسپین سے تعلق رکھنے والے دو کوہ پیما پیپ گریسز اور لورینزو اورٹسکیمپ فور سے نیچے اتر رہے تھے۔ انہوں نے طوفانی رات کیمپ فور میں گزاری تھی اور اب وہ جلد سے جلد نیچے پہنچنا چاہتے تھے۔ ان کی منزل کیمپ تھری تھی۔ لیکن کیمپ تھری تک پہنچنے سے پہلے انہیں خون آلود چند چیزیں ملیں۔ ان میں سے ایک جامنی رنگ کا گرم فرکوٹ تھا جسے برطانیہ میں ’’پرکا‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک کوہ پیمائی کا بوٹ اور ایک ہارنیس بھی ملی۔ وہ فوراً ہی پہنچان گئے کہ یہ تمام اشیا الیسون کی تھیں۔ جب وہ کیمپ تھری پہنچے تو انہیں کچھ دور ایک لاش بھی دکھائی دی۔ پیپ اور لورینزو کی اپنی حالت غیر ہوچکی تھی۔ وہ فراسٹ بائیٹ اور تھکاوٹ کا شکار تھے۔ لہٰذا وہ اس لاش تک نہ پہنچ سکے۔ تاہم ان کا خیال تھا کہ یہ لاش الیسون کی ہے۔ انہیں یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ الیسون کو طوفانی ہوا نے چوٹی سے اٹھا پھینکا ہے۔
گریسز اور اورٹس کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسکردو پہنچایا گیا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ چھ کوہ پیماؤں نے پچھلی شب کے ٹو سر کر لی تھی۔ الیسون نے 7 بجے کے قریب ریڈیو ٹرانسمیٹر کے ذریعے کیمپ فور میں موجود لوگوں کو اپنی کامیابی کی اطلاع دی تھی۔ اس وقت طوفانی ہوائیں شروع نہیں ہوئی تھیں۔ تاہم 9 سے 10 بجے کے درمیان شروع ہونے والا طوفان اتنا شدید تھا کہ اورٹس کے مطابق کیمپ فور پر خیمے اکھڑ گئے۔ گریسز اور اورٹس نے ایک واحد سلیپنگ بیگ میں ایک دوسرے سے لپٹ کر جان بچائی۔
19 اگست 1995ء کو برطانوی اخبار انڈی پینڈنٹ نے ایک خبر شائع کی جس میں خیال ظاہر کیا گیا کہ دیگر کوہ پیماؤں نے چوٹی کے قریب کہیں پناہ لے لی تھیں جب کہ الیسون نیچے اترنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ ہوا انہیں لے اڑی۔ تاہم جلد ہی یہ واضح ہوگیا کہ تمام چھ کوہ پیما طوفان میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ تیز ہوا نے انہیں پہاڑ کی چوٹی سے اٹھا کر کہیں سے کہیں پٹخ دیا تھا۔
پیٹر ہیلری سمیت کیمپ فور پر موجود تین کوہ پیما بروقت نیچے اترنا شروع ہو گئے تھے۔ لہذا بغیر کسی نقصان کے بیس کیمپ تک پہنچ گئے۔ باٹل نک سے واپسی اختیار کرنے والے جیف لیکس بمشکل نیچے اترے اور بیس کیمپ کے قریب گر گئے۔ انہیں دوسرے کوہ پیماؤں نے گھسیٹ کر کیمپ کے اندر پہنچایا۔ وہ 15 اگست کی شب دم توڑ گئے۔ گریسز اور اورٹس فراسٹ بائیٹ کا شکار ہوئے۔
تین جانیں پیٹر ہیلری کی عقل مندی نے بچائیں۔ تاہم موسم کی خرابی کا خطرہ بیان کرنے والے صرف پیٹر ہیلری ہی تنہا نہیں تھے۔ کے ٹو سر کرنے والے افراد کو پاکستانی انتظامیہ کی جانب سے ایک فوجی افسر رابطہ کاری اور رہنمائی کے لیے فراہم کیا جاتا ہے۔ الیسون کے لیے مذکورہ افسر کیپٹن فواد تھے جنہوں نے برطانوی خاتون کوہ پیما کو بتایا تھا کہ موسم جلد ہی بگڑنے والا ہے اور چوٹی پر جانا خودکشی کے مترادف ہوگا۔ لیکن الیسون ہر قیمت پر کے ٹو سر کرنا چاہتی تھیں۔ جون میں پاکستان پہنچنے کے بعد وہ دو مرتبہ کے ٹو پر چڑھائی ادھوری چھوڑ چکی تھیں۔ تیسری کوشش کی ناکامی کی وہ متحمل نہیں ہو سکتی تھیں۔
کیوں؟ الیسون کے شوہر جم بیلرڈکوہ پیمائی سے متعلق سامان کا اسٹور چلاتے تھے۔ یہ اسٹور گھاٹے میں جانے کے بعد بند ہوگیا۔ کوہ پیمائی الیسون کا شوق ہی نہیں بلکہ پیشہ بھی تھا۔ وہ کوہ پیمائی میں اپنی مہارت ثابت کرکے اپنے لیے کلائنٹس حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ایک ہی سیزن میں دنیا کی تین بلند ترین چوٹیوں ایورسٹ، کے ٹو اور کنگچن چنگا کو کسی شِرپا کی مدد کے بغیر سر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ الیسون اور علی سد پارہ میں ایک چیز مشترک تھی۔ وہ اپنے روزگار کو بڑھانے کی کوشش میں جان سے گئے۔
چونکہ کوہ پیمائی الیسون کاپیشہ تھا، لہذا ان کے بیٹے ٹام بیلرڈ نے بھی یہی راہ اپنائی۔ 24 برس بعدمارچ 2019ء میں ٹام بیلرڈ نانگاپربت پر حادثے میں ہلاک ہوگیا۔ ٹام کے ساتھ اطالوی کوہ پیما ڈینئل بھی تھا۔ ٹام بیلرڈ اور ڈینئل کی لاشیں علی سد پارہ نے چار ہسپانوی کوہ پیماؤں کے ساتھ مل کر تلاش کی تھیں۔
دوسری جانب ہفتے کی صبح ایک بار پھر علی سدپارہ اور ان کے ساتھی غیر ملکی کوہ پیمائوں جان سنوری اور جون پابلو موہر کی تلاش میں پاکستان ائر فورس کا C-130 طیارہ کے ٹو کی چوٹیوں پر پہنچ گیا۔ جان سنوری کا ٹریکر، بیس کیمپ کے نزدیک ملا۔ ایسا لگتا ہے کوئی اسے استعمال کررہا ہے ۔ساجد علی سدپارہ نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ زلزے کے جھٹکوں سے برفانی تودوں کے گرنے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ تلاش کی اس مہم میں پہلی بارسنتھٹک اپرچر ریڈارٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے۔ مائیکرو سیٹلائٹ ارتھ آبزرویشن ٹیکنالوجی سے ہرمربع میٹر، ہر گھنٹہ تلاش کر سکتے ہیں۔ جہاں ہیلی کاپٹر کی پہنچ ممکن نہ ہو وہاں یہ ٹیکنالوجی بہت کارآمد ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ امید کمزور پڑ رہی ہے کہ ان تینوں کو پیمائوں میں سے شاید ہی کوئی زندہ بچا ہو۔
ادھر اسکردو پہنچنے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ساجد کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ ان کے والد کے ٹو کی چوٹی تک پہنچے تھے۔ ان کے ساتھ جو بھی حادثہ ہوا وہ چوٹی سر کرنے کے بعد واپسی کے سفر میں بوٹل نیک یا کہیں نیچے ہواہے۔ کے ٹو دنیا کا مشکل ترین پہاڑ ہے اورشاید دنیا کا پہلا بلند ترین پہاڑ بھی ہے۔1987ء میں صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے یہ کوششیں شروع کی تھیں کہ دونوں پہاڑوں کی بلندی ایک بار پھر ناپی جائے۔ اس وقت دنیا بھر کے اخبارات میں خبریں شائع ہوئی تھیں۔ لیکن عالمی سیاست کی دھول میں یہ سب کچھ کہیں دفن ہوگیا ۔کے ٹو کی بلندی 8,611 میٹر یعنی 28,251 فٹ بتائی جاتی ہے۔ جبکہ ایورسٹ کی بلندی 8,848 میٹر یعنی 29,029 فٹ بلند ہے۔ یعنی کے ٹو، ایورسٹ سے 237 میٹر یا 778 فٹ چھوٹا ہے۔ لیکن 1986ء میںارضی ماہرین کی یہ رائے تھی کہ اگر جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے تو ایورسٹ کا قد چھوٹا رہ جائے گا اورکے ٹو دنیا کی بلند ترین چوٹی کہلائے گی ۔ کیونکہ دنیا کی تیسرے اور چوتھے نمبر کی بلندترین چوٹیاں کے ٹو کے دائیں بائیں ہی موجود ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ میں7 مارچ1987ء میں جو خبر شائع ہوئی تھی اس کی تفصیلات کے مطابق کے ٹو کا نام نہایت غیر رومانی ہے اسے گوڈون آسٹن بھی کہا جاتا ہے۔ امریکی کوہ پیمائوں نے کے ٹو کو سر کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ کے ٹو کی بلندی جو اس زمانے میں 28,250 فٹ بتائی گئی تھی، کے ٹو اس سے 900 فٹ زیادہ بلند ہے۔ ان امریکی کوہ پیمائوں کے لیڈر، لانس اوونز تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ کے ٹوکی بلندی ایورسٹ سے 122فٹ زیادہ ہے۔ اس وقت ایورسٹ کی بلندی 29,028 فٹ بتائی جاتی تھی۔