بظاہر اپوزیشن اتحاد کا پلڑا بھاری، خفیہ رائے دہی ممکنہ نتائج پر اثر انداز ہوسکتی ہے
بظاہر اپوزیشن اتحاد کا پلڑا بھاری، خفیہ رائے دہی ممکنہ نتائج پر اثر انداز ہوسکتی ہے

اہم امیدوار سینیٹ ٹکٹ نہ ملنے پر مایوس

امت رپورٹ:
مختلف سیاسی پارٹیوں میں بعض ایسے امیدوار بھی سینیٹ ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے۔ جنہیں مضبوط امیدوار تصورکیا جارہا تھا۔ نون لیگ کا ذکرکیا جائے تو سب سے پہلی صف میں سابق گورنر سندھ محمد زبیر کھڑے تھے۔

لندن اور پاکستان میں موجود لیگی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ پارلیمانی بورڈ بننے سے بہت پہلے ہی نواز شریف اور مریم نواز نے سینیٹ ٹکٹ کے لیے محمد زبیرکے نام کی کلیرنس دے دی تھی۔ بیک وقت نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان کے طور پر ذمہ داری نبھانے والے محمد زبیر کو پارٹی میں اس لئے بھی اہمیت حاصل ہے کہ چوہدری نثار کی غیر موجودگی میں اب وہ پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل والا رول ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

قبل ازیں پارٹی قیادت نے سندھ کی گورنر شپ دے کر ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ اس بار پہلی بار محمد زبیرکے ایوان بالا میں پہنچنے کا راستہ پوری طرح ہموار تھا۔ لیکن پارلیمانی بورڈ میں بیٹھے پارٹی رہنمائوں کی اکثریت اس راہ میں رکاوٹ بن گئی۔

اس معاملے سے آگاہ ان لیگی عہدیدار نے بتایا کہ محمد زبیر کی طرح خواجہ حسان بھی سینیٹ کے مضبوط امیدوار تھے۔ لاہور کے سابق میئر خواجہ حسان کو شہباز شریف کی آشیرباد حاصل تھی۔ اس طرح محمد زبیر اور خواجہ حسان وہ دو امیدوار تھے۔ جن کے ناموں کی پارلیمانی بورڈ بننے سے پہلے ہی اندرون خانہ پارٹی قیادت نے منظوری دے دی تھی تاہم جب سینیٹ الیکشن کے ٹکٹوں کے لیے امیدواروں کی درخواستیں وصول کرنے اور اپنی سفارشات دینے کے لیے پارٹی نے پارلیمانی بورڈ بنایا تو اس بورڈ میں شامل اہم رہنمائوں نے محمد زبیر پر پارٹی کے سینئر رہنما مشاہداللہ خان کو ترجیح دی۔

مشاہداللہ کو دوبارہ سینیٹ ٹکٹ دینے کی سفارش کرتے ہوئے یہ بات بھی پیش نظر رکھی گئی کہ آمر پرویز مشرف کے دور سے لے کر آج تک مشاہداللہ نے پارٹی کے لئے عملی قربانیاں دی ہیں۔ اس کے مقابلے میں سن دو ہزار بارہ میں نون لیگ جوائن کرنے والے محمد زبیر عمر اس وقت اگرچہ پارٹی قائد اور ان کی صاحبزادی کے بہت قریب ہیں۔ اور پارٹی کے لیے فعال کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔ تاہم ان کی خدمات کا مشاہداللہ خان کی قربانیوں سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مشاہداللہ کو دوبارہ ٹکٹ دینے کی سفارش کرنے والوں میں شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق جیسے سینئر رہنما شامل تھے۔ لہٰذا نواز شریف اور مریم نواز کی آشیرباد کے باوجود محمد زبیر سینیٹ ٹکٹ حاصل کرنے سے محروم رہے۔ نواز شریف نے اس حوالے سے پارٹی کی سینئر قیادت کی رائے کو ترجیح دی۔

ذرائع کے مطابق جب مریم نواز گروپ کے ایک مضبوط امیدوار کا پتہ کاٹ دیا گیا تو جواب میں شہباز شریف گروپ کے خواجہ حسان بھی سینیٹ ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ان کی سفارش خود سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے کی تھی۔ خواجہ حسان کو ٹکٹ دینے کی مخالفت کرنے والی لابی میں خواجہ سعد شامل تھے۔ جن کے لاہور کے سابق میئر کے ساتھ تعلقات اتنے مثالی نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے شہباز شریف کی پیشی کے موقع پر پارٹی کے ان دونوں خواجائوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ کے سبب یہ تعلقات مزید خراب ہوگئے تھے۔

خواجہ سعد نے الزام لگایا تھا کہ پی ڈی ایم کی مینار پاکستان ریلی کو کامیاب بنانے میں خواجہ حسان نے اپنا رول ادا نہیں کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے اس جھڑپ کے بعد اگرچہ دونوں پارٹی رہنمائوں میں صلح کرادی گئی تھی۔ لیکن دلوں کی رنجش اب بھی باقی ہے۔

نون لیگ کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ سینیٹ ٹکٹ نہ ملنے پر محمد زبیر عمر اور خواجہ حسان دونوں خاصے مایوس ہیں۔ اگرچہ میڈیا پر اس حوالے سے محمد زبیر کچھ کہنے سے گریزاں ہیں۔ تاہم ان کے قریبی لوگوں نے تصدیق کی ہے کہ پارٹی فیصلے سے انہیں دھچکا پہنچا ہے۔ کیونکہ اپنے تئیں انہیں سو فیصد سینیٹ ٹکٹ ملنے کا یقین تھا۔ پھر یہ کہ نواز شریف اور مریم نوازکی کنفرمیشن بھی آچکی تھی۔ تاہم ذرائع کے بقول محمد زبیراس ایشو پر پارٹی قیادت کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کے موڈ میں نہیں۔ فی الحال صبرکرنے کی پالیسی اختیار کریں گے۔ دوسری جانب خواجہ حسان نے بھی سینیٹ ٹکٹ نہ ملنے پر اپنے قریبی حلقوں میں مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے بقول اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پہلے ہی پارٹی معاملات میں زیادہ سرگرم نہ رہنے والے خواجہ حسان اب مزید غیر متحرک ہوجائیں گے۔
ادھر حکمراں جماعت تحریک انصاف کے تین سے چار ایسے افراد بھی سینیٹ ٹکٹ سے محروم رہے۔ جنہیں مضبوط امیدوار قرار دیا جارہا تھا۔ ان میں شہزاد اکبر اور بابر اعوان شامل ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کی سربراہی میں بننے والے گیارہ رکنی پارلیمانی بورڈ کی اکثریت نے شہزاد اکبراور بابراعوان کو سینیٹ ٹکٹ دینے کی مخالفت کی۔ پارلیمانی بورڈ میں گورنر سندھ عمران اسماعیل، گورنر خیبرپختون شاہ فرمان، گورنر پنجاب چوہدری سرور، شفقت محمود، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، وزیراعلیٰ خیبر پختون محمود خان، شاہ محمود قریشی، عامر کیانی، پرویز خٹک اور اسد عمر شامل تھے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی خواہش تھی کہ کم از کم بابر اعوان کو سینیٹ ٹکٹ دے دیا جائے۔ تاہم پارلیمانی بورڈ کے اکثریتی ارکان کا موقف تھا کہ عبدالحفیظ شیخ اور عبدالقادر جیسے غیر متعلقہ لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دینے پر پہلے ہی پارٹی کے اندر خاصے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ایسے میں بابر اعوان اور شہزاد اکبر کو بھی سینیٹ ٹکٹ دینے سے پارٹی کے اندر مزید بے چینی پھیلے گی۔ چنانچہ پارلیمانی بورڈ کے ارکان کی اکثریتی رائے کو پیش نظر رکھتے ہوئے بابر اعوان اور شہزاد اکبر کو سینیٹ ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق پچھلے ایک ماہ سے خاص طور پر بابر اعوان سینیٹ ٹکٹ کے لئے دن رات لابنگ میں مصروف تھے۔ وزیراعظم عمران خان کی قربت اور کئی پارٹی رہنمائوں سے گہرے تعلقات نے بابر اعوان کی توقعات بڑھادی تھیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں انہیں ٹکٹ دینے کی مخالفت بعض ایسے پی ٹی آئی رہنمائوں نے بھی کی۔ جو باہر انہیں ٹکٹ دلانے میں اپنا رول ادا کرنے کی یقین دہانی کراتے رہے تھے۔ بابر اعوان کے قریبی ذرائع کے مطابق سینیٹ ٹکٹ کے لئے دن رات لابنگ کے باوجود نامراد رہنے والے بابر اعوان بھی خاصے مایوس ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے پرانی تنخواہ پر پی ٹی آئی سے جڑے رہنے کو ترجیح دی ہے۔

تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کے مطابق جس طرح کا ری ایکشن بلوچستان میں عبدالقادر کو سینیٹ ٹکٹ دینے پر آیا تھا۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال سندھ میں سیف اللہ ابڑو کو ٹکٹ دیئے جانے پر بھی ہے۔ پی ٹی آئی کے بلوچستان چیپٹر نے تو شدید احتجاج کے بعد وزیراعظم عمران خان کو فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ یوں تعمیراتی شعبے کے ارب پتی بزنس ٹائیکون عبدالقادر سے، جنہوں نے چند روز پہلے ہی بلوچستان عوامی پارٹی کی کشتی سے چھلانگ لگاکر پی ٹی آئی جوائن کی تھی، سینیٹ ٹکٹ واپس لے لیا گیا۔

پی ٹی آئی بلوچستان کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ اگر عبدالقادر سے ٹکٹ واپس نہیں لیا جاتا تو تقریباً تمام مقامی قیادت بغاوت کر دیتی۔ یوں بلوچستان سے پی ٹی آئی کو سینیٹ کی ایک سیٹ نکالنا بھی مشکل ہوجاتا۔ اس صورت حال سے جب وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کیا گیا تو ان کے پاس گھٹنے ٹیک دینے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ اب عبدالقادر کی جگہ پارٹی کے دیرینہ ورکر ظہور آغا کو سینیٹ ٹکٹ دیا گیا ہے۔ قبل ازیں پی ٹی آئی بلوچستان کے ترجمان آصف ترین نے کہا تھا کہ صوبائی پارلیمانی بورڈ اور قیادت نے عبدالقادر کا نام تجویز نہیں کیا تھا۔ کیونکہ وہ پی ٹی آئی سے تعلق نہیں رکھتے۔
ادھر سندھ میں پی ٹی آئی کی مقامی قیادت کو بھی یہی شکوہ ہے کہ صوبے میں سینیٹ ٹکٹ کے امیدواروں کو ٹکٹ دیتے وقت اہم ورکرز اور رہنمائوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ جبکہ ایک ایسے دولت مند سیف اللہ ابڑو کو ٹکٹ دے دیا گیا ہے۔ جس نے سال ڈیڑھ سال قبل پارٹی جوائن کی تھی۔

پی ٹی آئی کراچی چیپٹر کے ایک عہدیدار کے مطابق پارٹی کے دیرینہ ورکر اشرف قریشی بھی سینیٹ ٹکٹ کے لئے لابنگ کر رہے تھے۔ اسی طرح فردوس شمیم نقوی بھی یہی امید لگائے بیٹھے تھے۔ لیکن ان دونوں رہنمائوں کو نظر انداز کرکے ایک نو وارد دولت مند کو نوازا گیا ہے۔ پی ٹی آئی عہدیدار کے بقول فردوس شمیم نقوی اس لیے بھی زیرعتاب ہیں کہ کراچی میں گیس بحران پرانہوں نے وفاقی حکومت کے خلاف سخت زبان استعمال کی تھی۔ اس پر وزیراعظم ان سے خاصے ناراض ہیں۔ اس کے نتیجے میں انہیں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شپ سے بھی ہاتھ دھونے پڑے تھے۔

پارٹی کے ایک اور مقامی رہنما سبحان علی ساحل نے بھی سیف اللہ ابڑو کو سینیٹ ٹکٹ دینے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کی کہ ’’پارلیمنٹ بورڈ وضاحت کرے کہ ایک سال قبل لاڑکانہ سے تحریک انصاف جوائن کرنے والے سرمایہ دار سیف اللہ ابڑو کی پارٹی کے لئے کیا قربانی ہے۔ کیا ٹکٹ کے لئے سرمایہ دار ہونا لازمی ہے؟ ان یکطرفہ فیصلوں سے پارٹی کا نظریاتی ورکر شدید مایوسی کا شکار ہے‘‘۔