حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ: صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت کو دفع کرتا ہے۔ (جامع ترمذی)
جس طرح دنیا کی مادی چیزوں جڑی بوٹیوں تک کے خواص او اثرات ہوتے ہیں، اسی طرح انسانوں کے اچھے برے اعمال اور اخلاق کے بھی خواص اور اثرات ہیں جو انبیائؑ کے ذریعے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اس حدیث میں صدقہ کی دو خاصیتیں بیان کی گئی ہیں: ایک یہ کہ اگر بندے کی کسی بڑی لغزش اور معصیت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا غضب اور ناراضی کا مستحق بن جائے تو صدقے کے ذریعے وہ اس کی رضا اور رحمت کا مستحق بن جاتا ہے اور دوسری خاصیت یہ ہے کہ وہ بری موت سے آدمی کو بچاتا ہے، یعنی صدقہ کی برکت سے اس کا خاتمہ اچھا ہوتا ہے، دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اس طرح کی موت سے بچاتا ہے، جس کو دنیا میں بری موت سمجھا جاتا ہے۔
حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوذرؓ نے رسول اکرمؐ سے عرض کیا کہ: حضور! بتایئے کہ صدقہ کیا ہے؟ (یعنی خدا کی طرف سے اس کا کیا اجر ملنے والا ہے؟) آپؐ نے فرمایا کہ: چند در چند (یعنی جتنا کوئی خدا کی راہ میں صدقہ کرے اس کا کئی گنا اس کو ملے گا) اور خدا کے ہاں بہت ہے۔ (مسند احمد)
مطلب یہ ہے کہ جوخدا کی راہ میں جتنا صدقہ کرے گا اس کو اس کا کئی گناخدا تعالیٰ عطا فرمائے گا۔ دوسری بعض احادیث میں دس گنے سے سات سو گنے تک کا ذکر ہے اور یہ بھی آخری حد نہیں ہے۔حق تعالیٰ جس کو چاہے گا اس سے بھی زیادہ عطا فرمائے گا، اس کا خزانہ لا انتہا ء ہے۔
بعض حضرات نے اس حدیث کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ صدقہ کے عوض میں کئی گنا تو خدا تعالیٰ اسی دنیا میں عطا فرماتا ہے اور اس کا صلہ جو آخرت میں عطا فرمایا جائے گا وہ اس سے بہت زیادہ ہو گا۔ یہ عام تجربہ ہے کہ خدا پر یقین اور اعتماد کرتے ہوئے اخلاص کے ساتھ جتنا اس کی راہ میں اس کے بندوں پر صرف کرتے ہیں، اس کا کئی گنا خدا تعالیٰ ان کو اس دنیا ہی میں عطا فرما دیتا ہے۔ ہاں اخلاص اور یقین شرط ہے۔