رپورٹ:حسام فاروقی
68سال پہلے کراچی میں کڑاہی کے دودھ کا زائقہ متعارف کروانے والے اسماعیل خان کی اب تیسری پیڑھی اس کام سے منسلک ہے اورکڑاہی کے دودھ کا کام 68سال سے بنا رکے جاری ہے، کڑاہی کا دودھ پہلے لکڑی کے چولھوں پر تیار کیا جاتا تھا جس کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ اور ماحولیاتی آلودگی کے سبب اب اس کام کو قدرتی گیس کے چولہوں پر کیا جاتا ہے، تیار کئے گئے دودھ کا زائقہ کراچی میں دیگر جگہوں پر دستیاب دودھ کے زائقے سے نہایت مختلف ہوتا ہے، جبکہ اس دودھ میں نا تو کچھ لوازمات ڈالے جاتے ہیں اور نا ہی مصنوعی خوشبو کو شامل کیا جاتا ہے، جس کے باوجود بھی شہر کے دور دراز علاقوں سے لوگ دودھ پینے کے لئے ریوالی ملک شام پر آتے ہیں جو کہ پریڈی کوارٹر ماما پارسی اسکول کے عقب میں قائم ہےْ
تفصیلات کے مطابق آج سے 68سال پہلے کراچی کے علاقے پریڈی کوارٹر ایم اے جناح روڈ ماما پارسی اسکول کے عقب میں ایک دودھ کی دکان قائم کی گئی تھی جسے اسماعیل نامی شخص نے قائم کیا تھا اور اس میں دودھ کو لکڑی کے چولہوں پر تانبے پے بڑے کڑاہے میں آہستہ آہستہ پکا کر گلابی کیا جاتا تھا جس کے بعد اسے دودھ پینے کے شوقین افراد کو فروخت کیا جاتا تھا، اس وقت اس دودھ کے منفرد زائقے کو ہر خاص و عام نے خوب سراہا تھا اور لوگ ماما پارسی اسکول کے عقب میں واقع اس دکان میں جوک در جوک دودھ پینے کے لئے آنے لگے تھے۔
دودھ پینے والوں میں ان لوگوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہو گئی تھی جنہیں دودھ سے زیادہ رغبت نہی رہی تھی مگر اسماعیل نامی دکان کے مالک کی جانب سے دودھ کو تیار کرنے کا جو طریقہ استعمال کیا گیا تھا وہ ہر شخص کو پسند آیا تھا اور اس کی بدولت دودھ کو جو زائقہ نکھر کر سامنے آیا تھا اس نے سب کے دل موہ لیا تھا، اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس کاروبار کو دیکھتے ہوئے شہر کے مختلف علاقوں میں بھی لوگوں نے دودھ کی دکانوں پر کڑاہے میں دودھ کو تیار کرنا کا کام شروع کر دیا مگر جو زائقہ ریوالی ملک شام کی جانب سے متعارف کروایا گیا تھا وہ کوئی اور دکاندار اپنے دودھ میں پیدا نہی کر پایا، اور اتنے سال گزر جانے کے باوجود بھی آج تک یہ دکان اپنی پرانی شکل میں اسی مقام پر موجود ہے اور اسی طریقے سے دودھ تیار کرکے لوگوں کو پیش کرتی آرہی ہے۔
موجودہ وقت میں دکان کا کام سنبھالنے والے دکان کے مالک یاسر نے امت کو بتایا کہ یہ کام ان کے دادا اسماعیل نے شروع کیا تھا اور پھر یہ ہنر انہوں نے اپنے بیٹے یعنی یاسر کے والد اشرف کو سکھایا اور پھر یہ ہنر ان کے زریعے موجودہ مالک یاسر تک پہنچا، دودھ تیار کرنے کا یہ ہنر ان کے پاس عرصہ 26سال سے کام کرنے والے ان کے خاص کاریگر افضل کے پاس بھی موجود ہے جن کی زمہ داری دودھ کو روزآنہ گراہکوں کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے۔
افضل کا امت سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس کام میں بہت محنت درکار ہوتی ہے جس کے بعد ہی دودھ میں وہ زائقہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دودھ کو پینے والا ہر شخص اس کی تعاریف کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو ہم دودھ کی خریداری کرتے ہیں اور اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس باڑے سے ہم دودھ لے رہے ہیں اس میں موجود جانوروں یعنی بھینسوں کی حالت کیسی ہے، کہیں ان میں کوئی جانور بیمار یا لاغر تو نہی ہے، اس چیز سے مطمئن ہونے کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کہیں بھینسوں کو دودھ زیادہ دینے والے انجیکشن تو نہی لگائے جاتے ہیں، جن ہم اس چیز سے بھی مطمئن ہو جاتے ہیں تو ہم انہیں اپنی مطلوبہ مقدار کے حساب سے آرڈر دیتے ہیں اور ان سے ایک سال کا ایگریمنٹ کر لیا جاتا ہے، جس کے بعد وہ روزآنہ کی بنیاد پر ہمیں دودھ فراہم کرتے ہیں، دودھ دکان پر آنے کے بعد ہم اس کا مشینوں کی مدد سے بھی جائزہ لیتے ہیں کہ یہ کتنا خالص دودھ ہے اور کہیں اس میں کھٹاس تو نہی پیدا ہو رہی ہے، جب ہم ہر طرح سے مطمئن ہو جاتے ہیں تو ہم اس دودھ کو نہایت صاف باریک کپڑے کی مدد سے کئی بار چھانتے ہیں، جس کے بعد اس دودھ کے اپنے پاس موجود بڑے پتیلوں میں دو سے تین بار ابال آنے تک گرم کرتے ہیں جس کے بعد اسے ہم دکان پر موجود بڑے پیتل کے کڑاہے میں الٹ کر اس کے نیچے ہلکی آگ جلا دیتے ہیں، اور دن تین بجے سے کڑاہے میں ہلکی آنچ پر پکنے والا دودھ شام سات بجے تک تیار ہو جاتا ہے اور پھر ہم اس کے فروخت کا کام شروع کرتے ہیں، مگر یہ دودھ جیسے جیسے پکتا جاتا ہے اس کا زائقہ مزید نکھرتا جاتا ہے اور دودھ کی فروخت کا سلسلہ رات دو سے تین بجے تک جاری رہتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم روزآنہ اپنی دکان پر 10من سے زائد دودھ فروخت کرتے ہیں، اور زیادہ تر پرانے لوگ اس دکان پر سادہ دودھ پینے کے لئے تشریف لاتے ہیں جو کہ نا تو دودھ میں شکر ڈلواتے ہیں اور نا ہی دیگر کوئی مشروب اس میں شامل کروانا پسند کرتے ہیں، جبکہ نئی نسل دودھ میں شکر کے ساتھ ساتھ روح افزا اور پاکولا مشروب بھی شامل کرواتی ہے اور دودھ کو ان مشروبات کے ساتھ نوش کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شروع کے ادوار میں دودھ تیار کرنے کا کام لکڑیا جلا کر کیا جاتا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے اس کام کو سوئی گیس پر منتقل کر دیا کیونکہ لکڑی جلانے سے پورے علاقے میں دھواں پھیلنے لگتا تھا اور اس سے ماحولیاتی آلودگی بھی ہوتی تھی، مگر جو زائقہ لکڑی جلا کر دودھ کو پکانے سے آتا تھا وہ زائقہ اب زیادہ نہی ملتا ہے مگر اس کے باوجود بھی جو دودھ ہم پکا کر فروخت کر رہے ہیں اس کے مقابلے میں پورے کراچی میں کہیں بھی اس لذت کا دودھ فروخت نہی ہوتا ہے، اور ہمارے پاس شہر کے دور دراز علاقوں جیسے لیاری، کھارا در، ناظم آباد، طارق روڈ، سرجانی، کورنگی، اورنگی، ملیر، اور شاہ لطیف سمیت گلشن حدید سے بھی لوگ دودھ پینے کے لئے آتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں اپنے کام پر کافی فخر محسوس ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے دیگر لوگوں کی طرح دودھ میں خشک میوہ جات کبھی شامل نہی کئے ہیں مگر ہم اپنے پاس یہ سب چیزیں موجود رکھتے ہیں اور اگر کوئی کہنا ہے تو اسے دودھ میں خشک میوہ جات شامل کرکے دے دیتے ہیں، زیادہ تر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے دود ھ میں نر چھوارے کو شامل کیا جائے مگر یہ لوازمات ہمارے پاس نہی ہوتے ہیں البتہ بادام اور پستے ہم لوگوں کے کہنے پر دودھ میں شامل کر دیتے ہیں۔
دودھ جلیبی کے بارے میں پوچھنے پر ان کا کہنا تھا کہ دودھ جلیبی زیادہ تر موسم سرماں میں فروخت ہوتی ہیں اس لئے جلیبی ہم سردی کے موسم میں رکھتے ہیں اور دودھ کے ساتھ جو جلیبی کھانا چاہے اسے ہم دودھ میں جلیبی بھی شامل کر کے دے دیتے ہیں،مگر ہمارے دودھ کا اصل زائقہ بناء کسی خشک میوہ جات اور جلیبی کے ہی آتا ہے جس کی لوگوں کی اکثریت دیوانی ہے، اسی لئے ہمارے پکے ہوئے دودھ کا کاروبار سارا سال چلتا ہے اور جون جولائی کے مہینے میں بھی ہماری دکان پر دودھ پینے والوں کا اس ہی طرح سے ہجوم رہتا ہے جیسے سردیوں میں ہوتا ہے، اس وقت کراہے کا پکا ہوا دودھ ہمارے پاس 45روپے پاؤ فروخت کیا جا رہا ہے،جبکہ دیگر دکانوں پر پکا ہوا دودھ 50روپے پاؤ فروخت ہو رہا ہے، ہم نے فقیروں کے لئے بھی انتطام کر رکھا ہے شام ہوتے ہی دکان کے باہر فقیروں کی بھی ایک لائن لگ جاتی ہے جو دکان کے باہر بیٹھ جاتی ہے، ویسے تو روز ہی کوئی نا کوئی مخیر شخص باہر بیٹھے فقیروں کو دودھ پلاتا ہی رہتا ہے مگر رات کو جو فقیر دودھ پینے سے رہ جاتے ہیں انہیں پھر ہم اپنی جیب سے دودھ پلا دیتے ہیں تاکہ اس زائقہ دار دودھ سے ہر شخص لطف اندوز ہو سکے اور کوئی محروم نا رہ جائے۔
کراچی میں پہلی بار لسی کے زائقے کوبھی 68سال پہلے ریوالی ملک شاپ نے ہی متعارف کراوایا تھا اور لسی کو کراچی کے باسیوں نے بہت پسند کیا تھا جس کے بعد سے شہر میں لسی کا کام دیگر دکانوں میں بھی شروع کیا گیا۔
ریوالی ملک شاپ پر دہی صرف لسی بنانے کے مقصد کے لئے ہی جمایا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ صبح کے ناشتے کے وقت رات بھر پکنے والے دودھ کی بالائی بھی لوگوں کو فروخت کی جاتی ہے، دکان کے مالک یاسر اور کاریگر افضل نے امت سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کراچی میں پہلے بار لسی کو بھی دکان پر ریوالی ملک شاپ کی جانب سے متعارف کروایا گیا تھا اور ہماری تیار کی جانے والی لسی کو کراچی کے شہریوں نے خوب پسند کیا تھا اور ہماری دکان پر لسی پینے کے لئے اولڈ ایریا سے لوگ جوق در جوق دکان پر آتے تھے،ہمارے پاس نمکین لسی، میٹھی لسی، زعفرانی لسی اور روح افرا والی لسی دستیاب ہوتی ہے جو لوگ اب بھی نہایت شوق سے نوش کرتے ہیں، ہماری جانب سے لسی کا کام شروع کئے جانے کے بعد شہر کے دیگر علاقوں میں بھی لسی ہاؤس کھلنا شروع ہوئے تھے اور بہت سے دودھ فروخت کرنے والے دکانداروں نے بھی لسی کا کام شروع کیا، مگر زیادہ تر لسی فروخت کرنے والے وہ دکاندار ہیں جن کے پاس اگر دہی بچ جاتا ہے تو وہ اس کو خراب ہونے کے ڈر سے لسی کی صورت دے کر فروخت کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کا گلہ بھی خراب ہو جاتا ہے، مگر ہمارے پاس دہی صرف لسی بنانے کے مقصد سے ہی جمایا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ رات بھر پکنے اور فروخت ہونے والے دودھ کی بالائی بھی ہم صبح کے اوقات میں فروخت کرتے ہیں جو لوگ ناشتہ میں بہت شوق سے کھاتے ہیں۔
ریوالی ملک شاپ شعبہ فنکاری سے تعلق رکھنے والے افراد میں بھی کافی مشہور ہے اور اس پیشے سے تعلق رکھنے والے کئی بڑے بڑے فنکار بھی اس دکان پر آکر دودھ پینا پسند کرتے ہیں۔
دکان کے مالک یاسر اور دکان کے دیگر معاملات سنبھالنے والے کاریگر افضل کا کہنا تھا کہ ہماری دکان پر فنکار برادری سے تعلق رکھنے والے کئی نامور شخصیات بھی آتی رہی ہیں اور اب نئے نوجوان فنکار بھی اکثر رات گئے ہماری دکان پر آکر پکا ہوا دودھ پینا پسند کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پولیس کے اعلی افسران بھی اس دکان پرآتے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ موجود پولیس کے دیگر اہلکاروں کو بھی ہماری دکان سے دودھ پلاتے ہیں اور یہ سب دیکھ کر ہمیں نہایت خوشی محسوس ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں یہ کام اسی طرح ہمیشہ جاری رہے اور کراچی کے لوگ ہماری دکان پر ملنے والے خالص اور پکے ہوئے دودھ سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔