احمد نجیب زادے:
سیاہ فام امریکی شہری کو اڑسٹھ برس سے زائد جیل میں گزارنے کے بعد تراسی برس کی عمر میں بالآخر پنسلوانیا اسٹیٹ جیل سے رہا کر دیا گیا۔
محض پندرہ برس کی عمر میں بچہ جیل بھیجے جانے والے سیاہ فام امریکی نوجوان جوزف لیگون کو قتل، ڈکیتی اور شراب خوری کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ جوزف اپنی بے گناہی پر مسلسل اصرار کرتا رہا۔ لیکن اسے رہا نہیں کیا گیا۔ سڑسٹھ برس کی قید کی وجہ سے جوزف کے سبھی اقربا دور ہوگئے یا مر گئے اور اس کی شادی بھی نہیں ہوسکی۔
جوزف کی رہائی کیلیے ایک امریکی وکیل کو خیال آیا اور اس نے سپریم کورٹ میں بیس برس قبل اپیل کی۔ جس پر فیصلہ سناتے ہوئے سریم کورٹ آف امریکا نے بچوں کو سزائے عمر قید ہی غیر آئینی قرار دیدیا اور تمام ریاستوں کو کہا کہ وہ اپنے جیل خانوں میں ان تمام قیدیوں کو رہائی دیدیں۔ جو عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔ لیکن اس معاملہ پر پنسلوانیا کی ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ کی اس رولنگ کو ماننے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں 1958ء سے پنسلوانیا جیل میں قید سیاہ فام جوزف لیگون کو جیل سے رہائی نہیں مل سکی۔
اب ایک خصوصی سماعت کے نتیجے میں جوزف کو جیل سے رہائی دیدی گئی ہے۔ لیکن امریکی نظام انصاف اور عدالیہ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ ایک انسان کا مستقبل تباہ کرنے کا کون ذمہ دار ہے اور اپنی پوری جوانی اور ادھیڑ عمری کو جیل میں گزارنے والے جوزف کی عمر ضائع کرنے کے عوض کیا بھرپائی کی جائے گی؟ یاد رہے اس سیاہ فام قیدی کی زندگی اجاڑنے والی امریکی عدلیہ اور پیچیدہ نظام کی جانب سے جوزف کو کسی قسم کی ہرجانے کی کوئی پیشکش نہیں کی گئی۔ جس سے اس کا مستقبل مخدوش ہے اور اس کا کوئی معاشی سیٹ اپ نہیں۔
امریکی میڈیا نے جوزف کی زندگی پر رپورٹ میں بتایا کہ پنسلوانیا اسٹیٹ کی جانب سے جوزف کو دو بار سزائے عمر قید سنائی گئی ہے۔ جو انوکھا واقعہ ہے۔ امریکی جیل حکام اور پراسیکیوٹرز نے بتایا کہ انیس سو اٹھاون میں سیاہ فام نوجوانوں کے ایک گروپ نے ڈکیتیوں کا ارتکاب کیا اور مزاحمت کے نتیجہ میں سفید فام شہریوں کو زدوکوب کیا۔ جس کے نتیجہ میں دو سفید فام اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس پر پراسیکیوٹرز نے جوزف کو شریک مجرم ٹھیرایا اور عدالتی احکامات پر اسے سزائے عمر قید سنائی گئی۔ تاہم سماعت کے دوران پندرہ سالہ جوزف لیگون کا موقف تھا کہ وہ اگرچہ شراب خوری اور ڈکیتیوں میں شامل تھا۔ لیکن اس نے کسی کو قتل نہیں کیا۔ اس لئے اس کی سزا کم کی جائے۔ لیکن اس کا موقف رد کر دیا گیا اور اسے بچہ جیل میں رکھنے اور سزائے عمر قید پوری کرنے کے احکامات دے دیئے گئے۔ بعد میں بھی اس کا موقف سننے کے بجائے اسے دوبارہ عمر قید کی سزا سنادی گئی۔ امریکی وکیل بریڈلے برج، جنہوں نے 2015ء سے جوزف لیگون کی رہائی کیلیے کوششیں کیں، کا ماننا ہے کہ وہ اس کیس میں کافی مقامات پر مایوس ہوئے تھے۔
وہ گزشتہ پندرہ برس سے جوزف کی رہائی کیلیے کوشاں تھے۔ لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ الباما کے ایک غریب امریکی سیاہ فام گھرانے میں پیدا ہونے والے جوزف کی قید کے دوران تمام گھر والے بشمول والدین آنجہانی ہوچکے ہیں۔ جیل کی زندگی کے بارے میں جوزف لیگون کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی اس نظام کے سامنے جھکے نہیں۔ اسی لئے انیس سو ستّر میں جب ہزاروں قیدیوں کی سزائے عمر قید معاف کرکے ان کو رہائی دی جارہی تھی تو اسے بھی جیل حکام نے معافی نامہ بھرنے کیلیے کہا۔ لیکن اس نے کہا کہ میں جس جرم میں قید رکھا گیا ہوں۔ وہ کبھی میں نے انجام ہی نہیں دیا۔ اس لیے میں اگر معافی نامہ لکھوں گا کہ میری سزائے عمر قید ختم کردی جائے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ میں نے یہ جرم کیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ میں بے گناہ ہوں اور میں نے کسی انسان کو ہلاک نہیں کیا۔ امریکی تجزیہ نگاروں اور میڈیا سمیت انسانی حقوق کارکنان کا کہنا ہے کہ جوزف کا نام جدید انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ قید میں رہنے کا ریکارڈ بنا چکا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ جوزف کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کیلیے ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا جائے کہ وہ دنیا کی تاریخ کا پہلا بچہ ہے۔ جس نے اڑسٹھ برس چار ماہ قید میں گزارے ہیں اور اب وہ رہائی پاکر خوش ہے۔
پنسلوانیا کے جیل حکام کا دعویٰ ہے کہ اڑسٹھ سال تک جیل میں رہنے کے باوجود جوزف لیگون کا اخلاقی اور نفسیاتی رویہ حیران کن اور مستحکم ہے۔ اس کی سوچ میں ٹھیرائو ہے اور اس کا موقف مضبوط ہے۔ اس نے جیل میں ایک بہترین قیدی کے طور پر حکام کیلئے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کیا۔ وہ جیل میں ایک پروفیشنل باکسر کے طور پر ٹریننگ لے کر نہ صرف خود سیکھتا رہا۔ بلکہ دوسرے قیدیوں کو بھی باکسنگ سکھائی۔ جوزف کی رہائی کیلئے کارگزار امریکی قانونی ایسوسی ایشن نے بتایا کہ جوزف پیرول یا عارضی رہائی نہیں چاہتے تھے۔ وہ تو بس مکمل رہائی کے خواہشمند تھے۔ یاد رہے پانچ برس قبل2016ء میں جوزف کی پیرول پر رہائی کیلیے سپریم کورٹ کے احکامات پران کو پیشکش کی گئی تھی ک ہچاہیں تو پیرول پر رہا ہوجائیں لیکن جوزف نے اس سلسلہ میں صاف منع کردیا کہ وہ پیرول پر رہائی کے بجائے مکمل رہائی چاہتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی بڑی حیران کن اور دلچسپ ہے کہ جوزف کیخلاف مقدمہ اور خود جوزف کی رہائی کیلئے ان کے وکیل کی جانب سے جمع کی جانے والی دستاویزات کا اپنا وزن دو سو کلو گرام سے زیادہ ہے۔ ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ اس پیرانہ سالی میں جوزف کیلئے کام یا مزدوری کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے ان کو حکومتی وظیفہ پر اکتفا کرنا ہوگا۔