فائل فوٹو
فائل فوٹو

کچھی کنال کی تعمیر میں کرپشن تحقیقات نیب کو منتقل

رپورٹ:عمران خان:
وفاقی حکومت کی ہدایت پر کچھی کنال کی تعمیر میں 85 ارب روپے کی بے قاعدگیوں کے حوالے سے انکوائری ایف آئی اے سے نیب کو منتقل کر دی گئی ہے۔ وزارت داخلہ کے احکامات پر کچھی کنال کی تحقیقات کیلیے کراچی میں قائم ہونے والی ایف آئی اے افسران کی جے آئی ٹی کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ کچھی کنال پروجیکٹ کا ریکارڈ، بینک ریکارڈ اور واپڈا ہیڈ کوارٹر سے لیے گئے ریکارڈ کے ڈبے نیب ملتان کے افسران لے کر چلے گئے۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ کچھی کنال کرپشن کی انکوائری میں بعض بااثر شخصیات اور افسران کو ایف آئی اے تحقیقات کی وجہ سے اندیشے لاحق ہونا شروع ہوگئے تھے۔ کیونکہ ایف آئی اے کی ٹیم نے کچھی کنال منصوبے کے چاروں حصوں کی تعمیر کیلئے جاری ہونے والے فنڈز کے علاوہ خرچ کی جانے والی رقم کے حوالے سے بینک ڈیٹا اور وائوچرز کا ریکارڈ حاصل کرکے چھان بین شروع کردی تھی۔ جبکہ نیب میں کچھی کنال کے صرف ایک مخصوص حصے کی انکوائری کی جا رہی تھی۔ جو ملتان سے گزر کر بلوچستان میں جاتا ہے۔ ذرائع کے بقول نیب حکام اب تک یہ فیصلہ نہیں کرسکے کہ وہ اپنے پاس موجود ایک فیز کی انکوائری کیلئے ہی ایف آئی اے سے حاصل کردہ ریکارڈ استعمال کریں گے یا پھر چاروں فیز کی تحقیقات مکمل کی جائے گی۔ جس سے اس پروجیکٹ میں کرپشن کے حوالے سے وفاقی حکومت کے تحقیقات کرانے کے عزم پر بھی سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق گزشتہ ماہ اسلام آباد میں مشترکہ مفادات کائونسل نے اپنے 40 ویں اجلاس میں جو فیصلے کیے تھے۔ اس میں کچھی کنال سے متعلق بھی اہم فیصلہ کیا گیا۔ کابینہ کے اجلاس میں کچھی کنال کرپشن کیس میں ایف آئی اے کو ذمہ داری دی گئی تھی کہ ایک مہینے میں انکوائری کرے۔

واضح رہے کہ بلوچستان کے پس ماندہ علاقوں ڈیرہ بگٹی، سوئی اور نصیر آباد میں 72 ہزار ایکڑ خشک اور بیابان رقبے کو آباد کرنے کیلئے پانی کی سپلائی کے بڑے اور انقلابی منصوبے ’کچھی کنال‘ کو 2002ء میں واپڈکے تحت شروع کیا گیا تھا۔ 363 کلومیٹر طویل نہری منصوبے کا 281 کلومیٹر حصہ پنجاب، جبکہ 81 کلومیٹر بلوچستان کے علاقے میں ہے۔ اس پروجیکٹ کو اگلے 5 برس کے اندر تین مراحل میں مکمل کیا جانا تھا اور اس کی ابتدائی لاگت کا تخمینہ 80 ارب روپے لگایا گیا تھا تاہم اس کا پہلا مرحلہ ہی 10 برس کی تاخیر سے 2017ء میں 80 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا۔ جس کا افتتاح سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کیا تھا۔ جبکہ اس کے دیگر دو مرحلوں پر ابھی کام جاری ہے۔ اس منصوبے میں کرپشن اور تاخیر سے سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔

ذرائع کے بقول وفاقی حکومت کی جانب سے انکوائری میں ابتدائی طور پر تاخیر اور کرپشن کے ذمہ داروں کا تعین کر نے کیلئے کہا گیا اور اس پر رپورٹ اور سفارشات مرتب کرکے ایف آئی اے ہیڈ کواٹر اسلام آبادکے توسط سے طلب کی گئیں۔ وزیراعظم کے احکامات پر تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ ایف آئی اے کے 6 افسران پر مشتمل اس کمیٹی میں ایف آئی اے کے دو صوبوں کے تین زونز کے افسران کو شامل کیا گیا اور تحقیقاتی کمیٹی ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے حیدر آباد کی سربراہی میں قائم کرکے اس میں بلوچستان زون سے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر، جبکہ کراچی زون سے 3 انسپکٹرز اور سب انسپکٹر ز کو شامل کیا گیا۔ جبکہ تحقیقاتی ٹیم کی نگرانی ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ زون ون کو چیئرمین کی حیثیت سے دی گئی۔

بعدازاں ایف آئی اے کی جے آئی ٹی نے کنال پروجیکٹ میں کرپشن اور بدعنوانیون کے حوالے سے تحقیقات کرتے ہوئے منصوبے پر خرچ کئے گئے 85 ارب روپے کے اخراجات کا ریکارڈ حاصل کرکے چھان بین شروع کردی تھی۔ جس کیلئے اخراجات کا ریکارڈ واپڈا ہیڈ آفس کے علاوہ کچھی کنال پروجیکٹ آفس سے حاصل کیا گیا۔ جبکہ اس ریکارڈ کا بیشتر حصہ بینکوں سے بھی لیا گیا۔ جس میں بینکوں کے ذریعے ہونے والی ٹرانزکشنز، چیک، چالان، کیش وائوچرز اور سامان کی رسیدیں شامل تھیں۔

گزشتہ رمضان سے قبل تک ہونے والی تحقیقات میں ایسے شواہد بھی سامنے آنے لگے کہ 85 ارب روپے خرچ کرکے جو نہر بنائی گئی۔ اس سے مطلوبہ فوائد بہت ہی کم حاصل کئے جا سکے۔ اتنی رقم سے بلوچستان کے علاقوں نصیر آباد، سوئی اور ڈیرہ بگٹی کی 72 ہزار ایکڑ غیر آباد اور بنجر زمین کے بڑے حصے کو پانی سپلائی کر کے زر خیز بنایا جاسکتا تھا۔ تاہم اب تک صرف بلوچستان کے 500 ایکڑ رقبے کو ہی فائدہ پہنچ سکا۔ تفتیش میں سامنے آیا کہ منصوبے کے پہلے حصے میں پنجاب کے علاقوں تونسہ اور راجھن پور وغیرہ سے نہر گزارنے کیلیے جو رقم خرچ کی جانی تھی۔ اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں تھا۔ تاہم نہر کے ٹیل کے حصے یعنی بلوچستان والے حصے کی اہمیت زیادہ تھی۔ تاہم اس پر ابھی تک خاص توجہ نہیں دی گئی۔

’’امت‘‘ کو حاصل دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے کی جے آئی ٹی نے واپڈا اورکچھی کنال پروجیکٹ کے 24 اعلیٰ افسران کو شامل تفتیش کرکے ان کے بیانات حاصل کرنے شروع کر دیئے تھے۔ جس کیلئے ایف آئی اے کراچی سے لیٹر نمبر FIA/ACCK/ENQ-171-2019-8528-30 چیئرمین وپڈا لاہور آفس کو ارسال کیا گیا۔ اس لیٹر میں بتایا گیا کہ ایف آئی اے میں کچھی کنال پروجیکٹ میں بدعنوانیوں، خلاف ضابطہ امور اور قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچانے کے حوالے سے چھان بین کی جا رہی ہے۔

لیٹر کے ذریعے مذکورہ جن 24 افسران کو اپنے بیانات قلمبند کرانے کیلیے ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل کراچی میں انکوائری افسران کے سامنے طلب کیا گیا۔ ان میں چیف واٹر ریسورس مرزا حامد حسن، شعیب اقبال ممبر واپڈا، موجودہ چیف پلاننگ اینڈ انوسٹی گیشن، شجاعت عالم سابق منیجر پروجیکٹ، موجودہ سینٹرل ڈیزائن آفس واٹر، محمد حنیف سابق جنرل منیجر، کفایت حسین نقوی چیف ریزیڈنٹ انجینئر، منظور احمد چیف جنرل منیجر سینٹرل واٹر، ہادی بخش میمن ایگزیکٹو انجینئر، مسعود الحسن ایگزیکٹو انجینئر، ظہور اسلم سب ڈویژنل آفیسر، منور اقبال سب ڈویژنل آفیسر، وسیم احمد سب ڈویژنل آفیسر، ظفر اقبال سب ڈویژنل آفیسر، ناصر حنیف جنرل منیجر ممبر آئی سی سی سی، مشتاق چوہدری ممبر واپڈا واٹر، ڈاکٹر محمد صدیق پروجیکٹ ڈائریکٹر، مہر غنی چیف انجینئر پروجیکٹ، مولا بخش جھومرو چیف انجینئر پروجیکٹ، طاہر حسن کھوسو چیف انجینئر پروجیکٹ، عبدلقادر شیخ ڈائریکٹر ہیڈ کوارٹر سینٹرل واٹر، مشتاق علی سانگی چیف انجینئر آئی سی سی سی، محمد امین ممبر واٹر اور محمد رفیق چیف انجینئر سول شامل ہیں۔

کچھ عرصہ قبل اچانک نیب چیئرمین آفس کی ہدایات پر نیب حکام نے کچھی کنال کی انکوائری فائل ایف آئی اے سے طلب کرلی۔ تاہم ایف آئی اے نے انکوائری فائل دینے سے پہلے وزارت داخلہ کو لکھا کہ نیب حکام صرف ایک حصے کا ریکارڈ طلب کر رہے ہیں۔ اگر ایک حصے پر نیب اور باقی تین حصوں پر ایف آئی اے تحقیقات کرے گی تو اس سے دوونوں جگہوں پر انکوائری متاثر ہوگی۔ اس لیے پوری انکوائری ایک ہی جگہ کی جائے۔ اس پر وفاقی حکومت کی ہدایات پر انکوائری فائل اوراس کا ریکارڈ نیب ملتان کے حوالے کر دیا گیا۔ جبکہ نیب افسران کراچی سے آکر سارا ریکارڈ لے گئے ہیں۔