علامہ ابو الفرج عبد الرحمن بن علی بن الجوزی کی ولادت 510 میں بغداد میں ہوئی اور وہیں 597 میں وفات پائی۔ آپ کی پرورش و پرداخت حالت یتیمی میں چچی کے زیر تربیت ہوئی اور اپنے ماموں شیخ ابو الفضل بن عامر سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ آپ علم کے شیدائی تھے۔ علوم اسلامیہ میں اچھی طرح دسترس کے بعد وعظ ونصیحت کی مجلسیں قائم کیں اور درس حدیث میں تشنگان علوم نبویہ کا مرکزبن گئے، چنانچہ آپ کی شہرت کا ڈنکا چہارسو بجنے لگا اور آپ ’’حافظ‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔
امام ابن جوزی ’’کتاب الاذکیائ‘‘ میں لکھتے ہیں:
دو آدمی ایک قریشی خاتون کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کے پاس سودینار بطور امانت رکھ کر کہا: ’’جب تک ہم دونوں اکٹھے ہوکر اپنا مال طلب نہ کریں، تب تک آپ یہ امانت واپس نہیں کریں گی۔ ہم دونوں کی موجودگی امانت واپس کرتے وقت ضروری ہے۔‘‘
اس عورت نے ان کی امانت رکھ لی اور اس پر ایک سال کا وقفہ گزر گیا۔ ایک سال کے بعد ان دونوں میں سے ایک شخص اس خاتون کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرے دوسرے ساتھی کا انتقال ہوگیا ہے، اس لئے جو سود ینار ہم نے تمہارے پاس امانت رکھے ہیں، مجھے دے دو۔‘‘
خاتون نے امانت اس کے حوالے کرنے سے انکار کردیا اور کہنے لگی: ’’تم دونوں ساتھیوں نے میرے پاس امانت رکھتے ہوئے یہ شرط رکھی تھی کہ میں تم میں سے ایک کی غیر موجودگی میں مال دوسرے کے حوالے نہ کروں، اس لئے میں امانت تیرے سپرد نہیں کرسکتی۔‘‘
اس آدمی نے خاتون کے اہل خانہ اور اس کے پڑوسیوں سے مدد طلب کی۔ ان لوگوں نے اس خاتون سے سفارش کی کہ اس کو امانت دے دو، کیونکہ اس کے ساتھی کا انتقال ہوگیا ہے۔ لوگوں کے بے حد اصرار اور سفارش پر اس عورت نے امانت اس شخص کو دے دی۔ ادھر اس بات کو ایک سال اور گزر گیا تو دوسرا شخص جس کو اس کے دوست نے مرا ہوا ظاہر کیا تھا، اس عورت کے پاس آیا اور آکر امانت طلب کی۔
خاتون نے بتایا: ’’تمہارا دوسرا ساتھی آیا تھا اور اس نے بتایا کہ تمہاری وفات ہوچکی ہے، اس لئے میں نے امانت اس کے حوالے کردی۔‘‘
وہ شخص اس عورت سے جھگڑنے لگا اور کہا کہ میں زندہ سلامت ہوں۔ میری امانت واپس کرو۔ عورت نے کہا کہ میں تو رقم تمہارے ساتھی کو دے چکی۔ اب اس نے عورت کے خلاف مقدمہ حضرت عمر فاروقؓ کی عدالت میں پیش کردیا۔
حضرت عمر فاروقؓ نے دونوں کا مقدمہ سنا اور پھر فرمایا کہ اس مقدمہ کو ہم حضرت علی ابن ابی طالبؓ کے سپرد کرتے ہیں اور ایک روایت کے مطابق خود ہی دونوں کو لے کر حضرت علیؓ کے پاس آئے۔ حضرت علیؓ نے دونوں کے بیانات سنے اور معاملہ کو بھانپ گئے کہ اس عورت کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، چنانچہ فرمایا:
’’کیا تم نے اس خاتون سے یہ شرط نہیں رکھی تھی کہ مال ایک کی غیر موجودگی میں دوسرے کے حوالے مت کرنا؟‘‘
اس آدمی نے جواب دیا: ’’ہاں یہ شرط تو رکھی گئی تھی۔‘‘
حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’ تمہارا مال ہمارے پاس موجود ہے، اپنے ساتھی کو بلا لائو، تاکہ میں تم دونوں کا مال تمہارے سپرد کردوں۔‘‘ (کتاب الاذ کیائ، ابن جوزی)