فائل فوٹو
فائل فوٹو

کسی جماعت کوکم نشستیں ملیں توذمے دارالیکشن کمیشن ہوگا۔سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق ریفرنس میں جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ سیاسی جماعتوںکی نشستیں صوبائی سیٹوں کے مطابق ہونی چاہئیں،جس جماعت کی سینیٹ میں جتنی نشستیں بنتی ہیں اتنی ملنی چاہیئں،کسی جماعت کوکم نشستیں ملیں توذمے دارالیکشن کمیشن ہوگا،صوبائی اسمبلی کے تناسب سے سیٹیں نہ ملیں توالیکشن کمیشن کی ناکامی ہوگی۔

نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے سے متعلق ریفرنس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس گلزاراحمدکی سربراہی میں5رکنی لارجربینچ نے سماعت کی،چیف الیکشن کمشنردیگرممبران کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے، جواب میں کرپٹ پریکٹس روکنے کیلیے خصوصی اقدامات کابتایاہے،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تفصیلی جواب جمع کرادیاہے،آن لائن شکایت سننے کاسسٹم شروع کررکھاہے،انتخابات سے متعلق موصول شکایات پرفوری کارروائی ہوتی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے سوالات کاکوئی جواب نہیں دیا،گزشتہ روزجوعدالت نے پوچھاتھااس کاکوئی جواب نہیں دیا گیا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ سینیٹ انتخابات آرٹیکل226کے تحت ہوتے ہیں،خفیہ ووٹنگ میں ووٹ کی تصاویربناناجرم ہے،خفیہ رائے شماری میں ووٹ قابل شناخت نہیں ہوتا،جسٹس اعجا زالاحسن نے کہاکہ آپ توآج سے قیامت تک سیکریسی کی بات کررہے ہیں،ایسانہ توآئین وقانون میں لکھاہے نہ ہی ہمارے فیصلوں میں،عدالت نے کہاکہ جو ان پڑھ ہیں یاووٹ کاسٹ کرنے کیلیے مددلیتے ہیں انکی سیکریسی کاکیاہوگا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ الیکٹرانک ووٹنگ بھی قابل شناخت ہے،سائبرکرائم والوں سے پوچھ لیں ہرمیسج ٹریس ایبل ہے،جسٹس مشیر عالم نے کہاکہ سیکریسی کامعاملہ الیکشن ایکٹ میں درج ہے سوال یہ ہے کس حدتک سیکریسی ہوگی،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ قومی اسمبلی انتخابات کیلیے فری ووٹ کی اصطلاح استعمال ہوئی،سینیٹ انتخابات کیلیے فری ووٹ کی اصطلاح کوشعوری طورپرہٹایاگیا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ ہرامیدوارسے ووٹوں کی خریدوفروخت نہ کرنے کابیان حلفی لیاجائےگا،ووٹوں کوخفیہ رکھنے کامطلب ہے کہ ہمیشہ خفیہ ہی رہیں گے،کاسٹ کیے گئے ووٹ کبھی کسی کودکھائے نہیں جاسکتے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ اوپن بیلٹ سے انتخابات کرانے کیلئے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی،جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آئین کاآرٹیکل226صرف ووٹ ڈالنے کوخفیہ رکھنے کی بات کرتاہے،ہم نے آپ کی بات سن لی،اب آپ جاسکتے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسارکیاکہ متناسب نمائندگی کاکیامطلب ہے؟سیاسی جماعتوںکی نشستیں صوبائی سیٹوں کے مطابق ہونی چاہئیں،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ووٹ ہمیشہ کیلیے خفیہ نہیں رہ سکتا،الیکشن کمیشن متناسب نمائندگی کوکیسے یقینی بنائے گا،جس جماعت کی سینیٹ میں جتنی نشستیں بنتی ہیں اتنی ملنی چاہیئں،کسی جماعت کوکم نشستیں ملیں توذمے دارالیکشن کمیشن ہوگا،صوبائی اسمبلی کے تناسب سے سیٹیں نہ ملیں توالیکشن کمیشن کی ناکامی ہوگی،وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ کم وبیش20آزاداراکین اسمبلی بھی ہیں۔

سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے سے متعلق ریفرنس میں چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کیا متناسب نمائندگی نہ ہونے سے سینٹ الیکشن کالعدم ہو جائیں گے ،ووٹنگ بے شک خفیہ ہو مگر سیٹس اتنی ہی ہوں جتنی بنتی ہیں ۔

جسٹس مشیر عالم نے کہاکہ ووٹ ڈالنے کے بعد خفیہ رکھنے کا مرحلہ ختم ہوجاتا ہے ،کرپشن کے خاتمے کیلئے الیکشن کمیشن ووٹ کا جائزہ لے سکتا ہے ،چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ کوئی جماعت تناسب سے زیادہ سیٹیں لے توالیکشن کمیشن کیا کرے گا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ووٹ فروخت کرنے سے متناسب نمائندگی کے اصول کی دھجیاں اڑیں گی ،کوئی جماعت تناسب سے ہٹ کرسیٹس جیت لے تو سسٹم تباہ ہوگا ۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ الیکشن کمیشن کیسے تعین کرتا ہے الیکشن متناسب نمائندگی سے ہوئے ،وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ کسی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے نہیں روک سکتے ،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آزادامیدوار جس کو چاہے ووٹ دے سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آزادانہ ووٹ نہیں دیا تو سینیٹ الیکشن الیکشن نہیں سلیکشن ہوں گے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ ووٹ دیکھنے کیلئے آرٹیکل 226 میں ترمیم کرنا ہوگا،ووٹ تاقیامت ہی خفیہ رہتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کی بات سن کر اب اٹارنی جنرل کاموقف سنیں،اٹارنی جنرل صاحب متناسب نمائندگی پر اپنے دلائل دیں، رضابارنی کو بھی ووٹ خفیہ رکھنے اور متناسب نمائندگی پر سنیں گے، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کیا ن لیگ کے وکیل بیرسٹر ظفراللہ موجود ہیں ،معاون وکیل جہانگیر جدون نے کہاکہ بیرسٹر ظفر اللہ کی طبیعت خراب ہے ۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ لیگی وکیل کوکل عدالت میں ہونا چاہیے کسی وقت کیس ختم ہو سکتا ہے،پاکستان بار کو صرف عدلیہ کی ازادی آئین کی بالادستی پر سنیں گے ،پاکستان بار کونسل کی کوئی سیاسی بات نہیں سنی جائے گی ۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کیا متناسب نمائندگی نہ ہونے سے سینیٹ الیکشن کالعدم ہو جائیں گے ،ووٹنگ بے شک خفیہ ہو مگر سیٹس اتنی ہی ہوں جتنی بنتی ہیں ۔