ایک مرتبہ کوئی شخص امام ابو یوسفؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا حضرت! میں نے آپ کی جانب سے ایک فرضی خط لکھ کر فلاں صاحب سے اتنی رقم حاصل کرلی ہے، اب وہ شخص مجھ سے مانگتا ہے، ازراہِ کرم آپ مجھے اس سے چھٹکارا دلائیے۔
امام ابو یوسفؒ نے بات سنی تو فوراً اس شخص کے گرفتار کرنے اور جیل میں ڈال دینے کا حکم دیدیا اور حکم دیا کہ جب تک رقم ادا نہیں کرو گے، اس وقت تک جیل سے رہائی نہیں مل سکے گی۔
اس شخص نے عرض کیا حضرت! میں نے ایک بار اسی طرح آپ کے استاد امام اعظم ابو حنیفہؒ کی طرف سے بھی ایک فرضی خط لکھ کر ایک شخص سے روپے حاصل کرلئے تھے، مگر جب میں نے ان کو اس کی اطلاع دی تو انہوں نے وہ روپیہ میرے طرف سے ادا کر دیا اور امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ جس شخص کے بارے میں آپ کو یہ خیال ہو کہ وہ میرا خط دیکھ کر تمہیں روپیہ دیدے گا تو تم خط لکھ کر روپیہ منگا لیا کرو۔
پھر امام ابو یوسفؒ سے کہنے لگا، جناب آپ بھی تو انہی کے اصحاب سے ہیں۔ آپ سے بھی مجھے یہی توقع تھی، مگر آپ ہیں کہ نہ صرف انکار کرتے ہیں، بلکہ مجھے سزا بھی دلوا رہے ہیں۔
امام ابو یوسفؒ نے فرمایا: بھائی! میں امام ابو حنیفہؒ نہیں ہوں، وہ ایک جلیل القدر عالم اور فقیہ تھے، لوگ ان کا ان کے علم و فضل کی وجہ سے احترام اور اعزاز کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے نام پر روپیہ دیدیتے تھے اور میں حکومت کا ایک ذمہ دار عہدیدار ہوں، اس لئے اس بات کا واضح امکان موجود ہے کہ جس کو تم نے میری طرف سے خط لکھا ہو وہ روپیہ نہ دینا چاہتا ہو، مگر میرے خوف سے اس نے دیدیا ہو۔
ایک روز تک اس کو جیل میں بند کرکے مایوس رکھا، جب اسے واقعی اپنی غلطی پر تنبہ ہوگیا اور امام ابو یوسفؒ اس کی ندامت کو بھانپ گئے تو دوسرے روز اس کو اپنے پاس بلایا اور اسے فرمایا کہ جس سے تم نے روپے لئے تھے، میں نے اسے واپس کردیئے ہیں اور تم کو رہا کر رہا ہوں، خبردار! اب اگر وہ شخص دوبارہ وہ رقم بطیب نفس بھی تمہیں واپس کرے تو ہر گز نہ لینا، جائو آئندہ ایسا ہرگز نہ کرنا۔
پورے واقعہ کا خلاصہ آپ کے سامنے ہے، حکومت کے متعلق اور اس کے ذمہ داروں کے نام سے عام طور پر جو فائدے حاصل کئے جاتے ہیں، امام ابو یوسفؒ نے اس کے سدباب کیلئے اس شخص کو قید کردیا، مگر ان کی طبعی فیاضی اور نرم خوئی کا اثر تھا کہ روپیہ بھی ادا کردیا اور رہائی بھی مرحمت فرمائی۔
حسن بن ابی مالکؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام ابو یوسفؒ نے فرمایا، میں بیمار پڑا اور اس بیماری نے میرے حافظہ پر چھاپا مارا۔ بیماری کی شدت کی وجہ سے جو کچھ بھی یاد تھا سب بھول گیا، سوائے علم فقہ کے۔ سوال کیا گیا حضرت یہ کیونکر؟ امام ابو یوسفؒ نے فرمایا علم فقہ کے سوا جو دوسرے علوم میرے پاس تھے، ان کی بنیاد صرف قوت حافظہ پر تھی اور وہ شدت مرض کی وجہ سے جواب دے گئی تو وہ علوم بھی جاتے رہے اور علم فقہ تو میرا جانا پہچانا علم تھا، ابتدائے شعور سے آج تک اس کے ساتھ تعلق رہا۔ علم فقہ میں میری مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کئی سال تک اپنے وطن سے غیر حاضر رہے، پھر اس کے بعد آئے تو کیا وہ اپنے گھر کا راستہ بھول جائے؟ بلکہ قدم خود بخود اس طرف بڑھیں گے۔
(حسن التقاضی، صفحہ 54)