علی سدپارہ کے منیجر نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے پاس کے ٹو سر کرنے کیلئے درکار مالی وسائل نہیں تھے جس کے باعث وہ غیر ملکی کوہ پیماؤں کے ساتھ بطور پورٹر گئے۔
محمد علی سدپارہ 5 فروری کو کے ٹو سر کرنے کی کوشش کے دوران دیگر 2 کوہ پیماؤں کے ہمراہ لاپتہ ہوگئے جن کا آج تک کوئی سراغ نہ مل سکا۔ جمعرات کو ان کے بیٹے ساجد سدپارہ نے پریس کانفرنس کرکے ان کی موت کا باقاعدہ اعلان کیا اور لوگوں سے دعائے مغفرت کی اپیل کی۔
علی سدپارہ کے منیجر نے بتایا کہ ان کو کے ٹو سر کرنے کا شوق تھا لیکن ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ اس لیے علی صدپارہ اور ان کا بیٹا جان سنوری کے ساتھ بطور پورٹر گئے تھے۔ منیجر کے مطابق جان سنوری نے علی صدپارہ کے مابین 10 ہزار ڈالر کا معاہدہ ہوا تھا۔
یاد رہے کہ کوہ پیمائی کیلئے درکار وسائل پر بھاری پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ریسکیو سروس کی مد میں بھی ایڈوانس ہزاروں ڈالر ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ہیلی کاپٹر ریسکیو کی صورت میں اخراجات لاکھوں ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس لیے کارپوریٹ ادارے اور بعض حکومتیں کوہ پیماؤں کو اسپانسر کرتی ہیں۔
علی صدپارہ کو اس طرح اسپانسر نہ ملے سکے جس طرح مغربی ممالک کے کوہ پیماؤں کو ملتے ہیں جس کے باعث نہ صرف ان کی مالی حالت اچھی نہ رہی بلکہ ان کے مشن پر بھی منفی اثر پڑا۔