رپورٹ:وجیہ احمد صدیقی:
فرانس کی اسمبلی نے اسلام دشمن بل کی منظوری دے دی ہے۔ بل کے نافذ ہونے کے بعد مسلمان، اسکولوں کے علاوہ مساجد اور مدارس میں دینی تعلیم نہیں دے سکیں گے۔ مصری اخبار الاھرام کی رپورٹ کے مطابق بل میں مسلم تنظیموں کا نام نہیں لیا گیا۔ لیکن مذہبی تنظیموں کی کڑی نگرانی ہوگی اور بچوں کو فرانسیسی اسکولوں کے باہر کوئی تعلیم دینے پر پابندی ہوگی۔ اس بل میں مسلمانوں کی عائلی روایات کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے اسلام میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت کا بھی مذاق اڑایا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف احتجاج کو جواز بنا کر یہ بل پیش کیا گیا ہے۔ کیونکہ اپنے شاگردوں کو نبی اکرم ﷺ کا خاکہ دکھانے والے ملعون ٹیچر سموئیل پاٹی کا سر ایک مسلمان نے تن سے جدا کر دیا تھا۔ پاکستان میں تحریک لبیک نے یہ مطالبہ کر رکھا ہے کہ پاکستان فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرے اور فرانسیسی سفیر کو واپس اس کے ملک بھیج دے۔ اب یہ سنہری موقع ہے کہ فرانس نے ایک ایسا بل منظور کیا ہے۔ جس میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ انسانی حقوق کی بہت بڑی خلاف ورزی ہے اور توہین رسالت بھی مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔ اسلامی شعائر پر عمل کرنے سے روکنا بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
اب تک مسلمان ممالک میں صرف ترکی کے صدر طیب اردگان نے فرانسیسی صدر پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’’ایمانوئل میکرون فرانس کے لیے ایک پریشانی ہیں۔ ان کی حکومت میں فرانس ایک بہت مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ مجھے امید ہے فرانس جتنا جلد ممکن ہو ان سے جان چھڑا لے گا‘‘۔ فرانس میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 50 لاکھ ہے اور زیادہ تر مسلمانوں کا تعلق الجزائر سے ہے۔ الجزائر پہلے فرانس کی نوآبادی رہا ہے۔ فرانسیسی حکومت نے انتہا پسندی کا بہانہ بناکر مسلمانوں کو کچلنے کے لیے یہ قانون منظور کیا ہے۔ جب یہ بل اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا تو اس پر یہ اعتراض کیا گیا کہ یہ اسلام دشمن بل ہے۔ اس میں ہدف صرف مسلمانوں کو ہی بنایا گیا ہے۔
نئے قانون پر اس لیے بہت زیادہ تنقید کی جا رہی تھی اور اب بھی کی جا رہی ہے کہ یہ مسلمانوں کو ایک مذہبی اور سماجی برادری کے طور پر الگ تھلگ کر دیتا ہے۔ اس قانون کے تحت فرانسیسی ریاست کو ایسے نئے وسیع تر اختیارات مل جائیں گے۔ جن کی مدد سے مسلمانوں کی اظہار رائے کی آزادی بھی متاثر ہو سکتی ہے اور ان کی نمائندہ مذہبی تنظیموں کی سرگرمیوں کو بھی محدود کیا جا سکتا ہے۔ اس مجوزہ قانون پر فرانسیسی مسلمانوں اوران کی نمائندہ تنظیموں کی طرف سے شدید تحفظات ظاہر کیے گئے۔ مگر حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے والی فرانسیسی مسلمانوں کی مرکزی تنظیم کی طرف سے دبائو میں آکر اس پر رضامندی کا اظہار بھی کر دیا گیا۔ اس قانون کی 70 سے زائد مختلف شقیں ہیں۔
ان شقوں میں یہ بھی شامل ہے کہ ریاست کے اختیارات میں اتنا زیادہ اضافہ کر دیا جائے گا کہ حکام نہ صرف مسلم مدارس اورمساجد کو بند کر سکیں گے۔ بلکہ اسلامی اور جہادی نظریات کی تبلیغ کرنے والے مبلغین پر پابندی بھی لگائی جا سکے گی۔ اس قانون کے تحت مسلم مذہبی گروپوں کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ خود کو بیرون ملک سے ملنے والی بڑی رقوم سے حکام کو آگاہ کریں اور ساتھ ہی اپنے رجسٹرڈ بینک اکاؤنٹس کی تصدیق بھی کروائیں۔ اس قانون میں یہ شق خاص طور پر اس لیے رکھی گئی کہ پیرس حکومت اس حوالے سے پائی جانے والی تشویش کا سدباب کر سکے کہ ملک میں مسلمانوں کی مساجد کو ترکی، قطر اور سعودیہ جیسے ممالک کی طرف سے رقوم مہیا کی جاتی ہیں۔
یاد رہے منگل کی شام منظور ہونے والے بل کی 347 ارکان نے تائید کی۔ 151 نے مخالفت اور 65 نے بل کی حمایت یا مخالفت میں ووٹ ہی نہیں دیا۔ اس بل کو علیحدگی پسندی مخالف بل کا نام دیا گیا تھا۔ لیکن اسے علیحدگی پسند بل ہی کہا جاتا رہا ہے۔ اس بل کو فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کی جماعت لا ری پبلک ان مارش پارٹی، ڈیموکریٹک موومنٹ، ایجر پارٹی، یونین ڈیمو کریٹس اور انڈی پینڈٹس کی بھر پور تائید حاصل ہے۔ جبکہ دائیں بازو کی جماعت ری پبلکن اور بائیں بازو کی جماعت لا فرانس انسومیز پارٹی نے اس بل کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ بائیں بازو کی سوشلسٹ پارٹی اور فرنچ کیمونسٹ پارٹی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ری پبلکن اس بل کی مسلسل مخالفت کرتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے نرم اقدامات “soft steps” کی بھی تائید نہیں کی۔ برونو ریتالیو سینیٹ میں ری پبلکن کے قائد ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اس بل میں واضح طور پر اسلامی علیحدگی پسندی کو شامل کیا جائے اور عوامی مقامات پر اسکارف پہننے پر پابندی کو بھی قانون کا حصہ بنایا جائے۔ یہ بل 30 مارچ کو سینیٹ میں زیر بحث لایا جائے گا۔ وہاں اس پر رائے شماری کے بعد یہ واپس قومی اسمبلی میں آئے گا۔
اس بل کے نتیجے میں مسلمانوں کو پابند کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں گھر پر کوئی تعلیم نہیں دے سکتے۔ مریض اپنی مرضی سے کسی ڈاکٹر کا اس کی جنس یا مذہب کی بنیاد پر انتخاب نہیں کر سکتا۔ یعنی مسلمان خواتین عموماً مسلمان لیڈی ڈاکٹر سے علاج کرانے کو ترجیح دیتی ہیں یا پھر کسی لیڈی ڈاکٹر سے علاج کے لیے تیار ہوتی ہیں۔ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عوامی خدمت پر مامور سرکاری ملازمین کے لیے سیکولرازم کی تعلیم لازمی ہے۔ کسی بھی شخص یا ادارے کو (جس میں نجی کمپنیاں بھی شامل ہیں جو ریاستی خدمات فراہم کر رہی ہیں) سیکولرزم کے اصولوں کا احترام اور عوامی خدمات کی غیر جانبداری کو یقینی بنانا ہو گا۔ جس کا مطلب ہے کہ پبلک سوئمنگ پولز میں اب مذہبی بنیادوں پر خواتین اور مردوں کے لیے الگ وقت مقرر کرنے پر پابندی ہو گی۔ پبلک سروس کو ان خدمات کی خلاف ورزی پر مجبور کرنے کی کسی بھی کوشش پر پانچ سال کی سزا اور 75 ہزار یورو کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔