خاتون کی بات سن کر ہی خلیفہ مامون کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا۔ اس نے چوبدار کو حکم دیا کہ عباس کو اس عورت کے برابر کھڑا کر دے تاکہ مدعی اور مدعا علیہ میں کوئی امتیاز نہ رہے۔
شہزادہ عباس خاموش تھا اور ہر سوال کے جواب میں رک رک کر ایک آدھ بات کہہ دیتا تھا۔ مغیرہ دھڑلے سے اپنی داستان مصیبت بیان کر رہی تھی۔ اس کے چہرے سے عصمت کا خون ٹپک رہا تھا، یہاں تک کہ اس کی زبان سے یہ لفظ نکلے۔
’’عباس! یہ صحیح ہے کہ تو مامون الرشید کا لڑکا اور سلطنت کا مالک ہے، لیکن یہ ہاتھ منتظر تھے، اس وقت کے کہ اگر تو اپنی دھن میں آگے بڑھ کر قریب پہنچتا تو تیری گردن خاک میں ملا دیتے۔ آل برامکہ کی دولت عباسیوں نے پامال کردی، مگر ہماری عصمت وہ دولت ہے کہ ہم عباسی سلطنت کو اس پر سے قربان کر دیں۔‘‘
وزرائے سلطنت مغیرہ کی جرأت پر متعجب ہوئے اور کہا یہ بیباکی آداب شاہی کے خلاف ہے، ادب سے گفتگو کرو۔
مامون نے کہا، اس کو مت روکو، یہ حق رکھتی ہے کہ جو کچھ اس کے منہ میں آئے کہے۔ یہ صرف اس کی صداقت ہے، جس نے اس کی زبان کو تیز اور اس کے حوصلہ کو بلند کردیا اور عباس کی کمزوری ہے، جس نے اس کو گونگا بنا دیا۔
اسی وقت پانچ تھیلیاں اشرفیوں سے بھری ہوئی اپنے ہاتھ سے لیکر مامون الرشید نے مغیرہ کے قدموں میں ڈال دیں اور نہ صرف اس کا مکان واپس کیا، بلکہ ایک جلیل الشان محل قصر عباس مغیرہ کو عطا کرکے درخواست کی کہ وہ شہزادے کا قصور معاف کر دے۔ (بابرکت واقعات)