ہشام کلبی کہتے ہیں، مجھے قبیلہ طے کے شیوخ میں سے بہت سے شیوخ نے ذکر کیا کہ حضرت مازن طائیؓ عمان کے علاقے میں بت پرستوں کیلئے بتوں کی خدمت کرتے تھے۔ ان کا اپنا بت تھا، جس کا نام ناجر تھا۔ حضرت مازنؓ فرماتے ہیں، میں نے ایک دن ایک جانور ذبح کیا تو اس بت سے آواز سنی جو یہ کہہ رہتا تھا۔
(ترجمہ) اے مازن! میرے پاس آئو، میرے پاس آو (اور) ایسی بات سنو، جس سے ناواقفیت نہیں کی جاتی۔ یہ (محمدؐ) بھیجا ہوا نبی ہے جو نازل شدہ حق لایا ہے۔ میری جگہ تو ان پر ایمان لے آ، تجھے شعلہ زن آگ سے بچا دیا جائے گا۔ اس کا ایندھن بڑی (بڑی) چٹانیں ہوں گی۔
حضرت مازنؓ فرماتے ہیں، میں نے کہا، خدا کی قسم یہ تو عجیب بات ہے (آج بت بھی بول رہا ہے) میں نے چند دن بعد ایک اور جانور قربان کیا تو پہلے سے بھی زیادہ واضح آواز میں سنا کہ وہ یہ کہہ رہا ہے۔
ترجمہ: اے مازن! تجھے خوشی ہوگی، خیر ظاہر ہوگی، شر چھپ گیا۔ ایک نبی (مراد آنحضرتؐ ہیں) قبیلہ مضر سے مبعوث ہوا ہے خدا کا بہت بڑا دین لیکر۔ پتھر سے گھڑے ہوئے (بت) کو چھوڑ تو دوزخ کی آگ سے محفوظ ہو جائے گا۔ (بیہقی ،دلائل النبوۃ بیہقی 255، 256، 257، 258، 259 مطولا)
حضرت ذباب بن حارثؓ فرماتے ہیں کہ ابن وقشہ کا ایک جن تھا جو اس کو چند پیش آنے والی باتیں بتلا دیتا تھا۔ ایک دن وہ آیا اور اس کو ایک بات بتلائی تو ابن وقشہ نے میری طرف دیکھا اور کہا۔
(ترجمہ) اے ذباب اے ذباب ایک عجیب وغریب بات سنو۔ محمدؐ کو مکہ میں نبی بنا کر بھیجا گیا ہے، لیکن اس کو مانا نہیں جا رہا، میں نے اس کو کہا یہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا، میں نہیں جانتا ایسے ہی (جن کی طرف سے) کہا گیا ہے۔
ابن اسحاقؒ کہتے ہیں، مجھے حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ سے حدیث بیان کی گئی ہے کہ جب آنحضرتؐ اور حضرت ابو بکرؓ ہجرت کو تشریف لے گئے تو تین راتوں تک ہمیں خبر نہ ہوئی کہ آپ کس طرف گئے ہیں، حتیٰ کہ مکہ کی نچلی جانب سے ایک جن ظاہر ہوا، جو عرب کے گانوں والے اشعار گا رہا تھا۔ لوگ اس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے اور اس کی آواز کو سنتے تھے، اس کو دیکھتے نہیں تھے، حتیٰ کہ وہ مکہ کی نچلی جانب سے نکل گیا، وہ یہ کہہ رہا تھا۔
(ترجمہ) انسانوں کا پروردگار خدا تعالیٰ بہترین جزا عطا فرمائے ان دو ساتھیوں پر جنہوں نے ام معبد کے خیموں میں قیلولہ کیا۔ یہ دونوں میدان میں اترے، پھر کوچ کیا پس وہ کامیاب ہوگیا جس نے محمدؐ کا رفیق بن کر شام کی۔
حضرت اسمائؓ فرماتی ہیں جب ہم نے اس کی بات سنی تو معلوم ہوا کہ آپ کس طرف کو تشریف لے گئے ہیں، آپ اس وقت مدینہ منورہ کا رخ فرما گئے تھے۔ (ابن اسحاق دلائل النبوۃ)
حضرت محمد بن حبس بن جبر فرماتے ہیں کہ قریش نے جبل ابو قبیس پر ایک بلند آواز سنی جو یہ کہہ رہا تھا۔
ترجمہ: اگر دونوں سعد مسلمان ہو جائیں تو آنحضرتؐ مکہ میں کسی مخالف کی مخالفت سے فکر مند نہیں ہوں گے۔
تو ابوسفیان اور اشراف قریش نے کہا، یہ سعدان کون ہیں؟ کیا یہ سعد بن ابی بکر اور سعد بن زید اور سعد بن قضاعہ ہیں۔
جب دوسری رات ہوئی تو انہوں نے جبل ابو قبیس پر (دوبارہ) آواز سنی۔(ترجمہ) اے قبیلہ اوس کے سعد! تم مددگار ہو جائو اور اے صاحب سخاوت قبیلہ خزرج کے سعد تم بھی۔ تم دونوں ہدایت کے داعیؐ کو لبیک کہو اور رب تعالیٰ کے سامنے جنت الفردوس میں عارف (خدا وندی) کے قرب جیسی تمنا کرو۔
تو قریش نے کہا یہاں تو سعدان سے حضرت سعد بن عبادہؓ اور حضرت سعد بن معاذؓ مراد ہیں۔ حضرت عبدالمجید بن ابی حبسؒ فرماتے ہیں کہ رات کے کسی حصے میں مدینہ شریف میں سنا گیا کہ ہاتف یہ کہہ رہا تھا۔
ترجمہ: شان والے بنو خزرج قبیلہ کے بوڑھوں کے بہترین لوگو: سعد بن عبادہ کی طرف چلو۔ جب آنحضرتؐ نے ان کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے لبیک کہی اور ان دونوں کو اسی وقت سعادت حاصل ہوگئی۔پھر ان دونوں نے مہذب زندگی گزاری، پھر ان کو خدا تعالیٰ نے شہادت عطا فرمائی۔ (ابن عبد البر، لعلہ فی الاستیعاب، الہواتف ابن ابی الدنیا،76)