علی مسعود اعظمی:
بھارتی جیلوں میں قید پاکستانی اپنی زندگی کے دن گننے لگے۔ بھارتی جیلوں میں قید پانچ پاکستانی قیدیوں کی پُراسرار شہادت کے واقعات کے بعد گجرات ہی کے حراستی مراکز میں مزید بیس پاکستانی قیدیوں کی جانوں کو سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔
گجرات میں موجود پٹیل نامی صحافی نے بتایا ہے کہ گجرات کے ہائی سیکiورٹی حراستی مراکز میں پانچ پاکستانی قیدی صرف 3 ماہ میں ہلاکتوں کا شکار ہوئے ہیں۔ نومبر 2020ء سے جنوری 2021ء کے دوران ہلاک ہونے والے تمام پاکستانی قیدیوں کی موت کا ایک ہی سبب یعنی ’’پاگل پن‘‘ قرار دیا گیا۔ جبکہ ان کی پوسٹ مارٹم کی مکمل رپورٹ جاری کرنے کے بجائے ان کی بنیادی ہلاکت کی وجہ کورونا وائرس لکھا گیا ہے۔ ان قیدیوں کا باقاعدہ علاج کرنے کیلiے متعلقہ حراستی مراکز میں جانے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر تلوانی نے پانچوں افراد اور بالخصوص جواں سال پاکستانی قیدی سید عبد الرحیم کی ہلاکت کی اطلاع پر حیرت کا اظہار کیا۔
ادھر انڈین انٹیلی جنس اور سیکiورٹی کی جانب سے ردعمل کے تحفظات کے پیش نظر صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ انہیں حیرت ہے کہ اتنا کڑیل جوان کیسے مر گیا؟ وہ بہت صحت مند حالت میں تھا۔ بھارتی لکھاری انکیت اگروال نے اپنے بلاگ پر لکھے مضمون میں ان پانچوں پاکستانیوں کی پُر اسر ار ہلاکتوں پر لکھا ہے کہ قیدیوں کی عمریں اور صحت کے مختلف معیارات کے باوجود بھارتی حکومت کی جانب سے پانچوں کی ہلاکتوں کو ’’پاگل پن‘‘ اور کورونائی مرض قرار دینا حیران کن ہے۔ پانچوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹیں پاکستانی سفارت خانہ کو فراہم کرنا تو کجا یہ رپورٹس بھارتی میڈیا کو بھی ان کی ریکوئسٹ کے باوجود فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔
یاد رہے کہ گجرات کے مختلف حراستی مراکز جن کو ’’جوائنٹ انٹروگیشن سینٹر‘‘ کہا جاتا ہے، ہائی سیکورٹی جیل سے مطابقت رکھتے ہیں جہاں کا کنٹرول براہ راست انڈین انڈین انٹیلی جنس کے پاس ہے اور یہاں گرفتار کرکے لائے جانے والے کسی بھی قیدی سے 22 بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں الگ الگ سیشن میں تفتیش کرتی ہیں۔
قیدخانے میں موجود ڈاکٹرز سمیت نرم دل اہلکاروں کا نام نہ ظاہرکرنے کی شرط پر کہنا ہے کہ بائیس ایجنسیوں کے انٹروگیشن افسران اور فارنسک ایکسپرٹس کی گرفتار قیدیوں سے کی جانے والی تفتیش ایسی جان لیوا ہوتی ہے کہ قیدی پاگل ہوجاتا ہے، سو یہی کچھ ان پانچوں پاکستانیوں کے ساتھ ہوا۔ جوائنٹ انٹروگیشن سینٹر بھوج اور کچھ میں پہلے پاکستانی قیدی ریاض فیض بخش کی ہلاکت کا واقعہ 4 نومبر2020ء کو بروز بدھ پیش آیا۔ شہادت کے وقت ریاض فیض کی عمر پچاس برس بتائی گئی ہے۔ اسی ماہ دوسرے پاکستانی قیدی 45 سالہ عاشق علی صادق علی کی شہادت 18 نومبر2020ء کو واقعہ ہوئی، جس کی خبر کو اگلے روز گجراتی میڈیا اور چنیدہ میڈیا آؤٹ لٹس نے شائع کیا۔ تیسرے پاکستانی 32 سالہ سید عبد الرحیم کی افسوسناک اور پر اسرار شہادت بھی بروز بدھ 2 دسمبر کو رونما ہوئی اور چوتھے پاکستانی کی جوائنٹ انٹرو گیشن سینٹر کچھ میں شہادت 11 جنوری2021ء بروز پیر رونما ہوئی۔ پانچویں پاکستانی شہری (ان کا نام ظاہر نہیں کیا جاسکا ہے) کی ہلاکت کی اطلاع بھارتی جوائنٹ انٹروگیشن سینٹر کے افسران نے بروز بدھ 13جنوری کو دی اور دعویٰ کیا کہ تمام پاکستانی قیدیوں کی ہلاکت پاگل پن اور کورونا کی وجہ سے سانس لینے میں دقت کی وجہ سے ہوئی۔
یاد رہے کہ ان تمام پاکستانی قیدیوں کو بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس نے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور ان کیخلاف فارن پاسپورٹ ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے گئے تھے لیکن اول روز سے ہی ان کو ’’فاتر العقل‘‘ قرار دیدیا گیا تھا لیکن کسی قیدی کو سفارتی رسائی نہیں دی گئی تھی۔ ایس پی سوربھ سنگھ نے ان پانچوں کی پوسٹ مارٹم یا آٹوپسی رپورٹ کے اجرا پر گفتگو سے معذرت کرلی اور کہا کہ یہ کام اسپتال والوں کا ہے کہ وہ کب رپورٹ ہمیں دیں گے۔
بھارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پانچوں سلسلہ وار ہلاکتوں کی اطلاع کے بعد سب ڈویژنل مجسٹریٹ ضلع بھوج نے ڈاکٹرز کی ایک ٹیم کے ساتھ جی جی اسپتال جام نگر میں لاشوں کا پوسٹ مارٹم کروایا اور ہلاکتوں کی وجوہات جاننے کیلئے میڈیکل بورڈ بٹھا کر لاشوں کے اجزا کو کیمیائی و فارنسک جانچ کیلئے بھیجا اور ان کا کہنا ہے کہ جب فارنسک جانچ رپورٹ ہمیں مل جائے گی تو اس بارے میں فیصلہ اعلیٰ حکام کریں گے کہ اس کو کہاں بھیجنا ہے اور کس کو دینا ہے۔ بھارتی میڈیا رپورٹ میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ 13 جنوری 2021ء کو ہلاک ہونیوالے پانچویں پاکستانی قیدی کے بارے میں جوائنٹ انٹروگیشن سینٹر کا دعویٰ ہے کہ وہ پاگل پن کی بیماری کی وجہ سے زیر علاج تھے مگر کئی برس سے قید ان کی بیماری کے حوالہ سے اس بات کا تعین نہیں کیا جا سکا تھا کہ وہ کس نفسیاتی بیماری میں مبتلا تھے۔ خود ان کے معالج ڈاکٹر تلوانی کے مطابق وہ بیمار لگتے نہیں تھے وہ بالکل جوان تھے۔ ان کی موت 13 جنوری کو بھوج شہر کے ایک ضلعی اسپتال میں ہوئی تھی،ان کو ایمرجنسی ایمبولینس کی مدد سے بھوج انٹروگیشن سینٹر سے اس اسپتال میں منتقل کیا گیا تھا۔
جوائنٹ انٹرگیشن سینٹر بھوج کے سپرنٹنڈ نٹ آف پولیس ایس سنگھ کا دعویٰ ہے کہ دستیاب دستاویزات کے مطابق ان کو 2009ء میں کچھ کے سرحدی علاقے سے بی ایس ایف نے حراست میں لیا تھا اور میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ پاکستانی صوبہ سندھ کے شہر بدین کے باسی تھے۔ انڈین ایکسپریس کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق بھارتی حکام نے ان ہلاک پاکستانیوں کے آبائی علاقوں کی معلومات کو ’’خفیہ دستاویزات‘‘ قرار دے کر ظاہر کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ پاکستانی حکومت کو ان کی اموات کی اطلاع دی جا چکی ہے، لیکن بھارت میں موجود پاکستانی سفارت خانہ اور اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ دوسری جانب بھارتی ذرائع کی جانب سے بیس مزید پاکستانیوں میں 8 کو ذہنی مریض قرار دیے جانے کے اطلاع کے بعد اس بات کا خدشہ پیدا ہوچلا ہے کہ ان کو بھی پراسرار طریقہ پر قتل کردیا جائے۔