حضرت علی بن فضیلؒ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت سفیان ثوریؒ مسجد حرام میں کعبہ شریف کے سامنے سجدہ ریز تھے۔ میں نے سات طواف کئے، مگر حضرت سفیان ثوریؒ نے سجدہ سے سر نہیں اٹھایا۔
رب تعالیٰ میزبان بنے!
ایک اعرابی ملتزم کے پاس کھڑا یوں دعا کر رہا تھا: یا الٰہی! آپ کے جو حقوق مجھ پر ہیں وہ مجھے بخش دیجئے اور لوگوں کی جو ادائیگیاں مجھ پر لازم ہیں، انہیں اپنے ذمہ لے لیجئے، آپ ہر مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور میں بھی مہمان ہوں، لہٰذا آج کی رات جنت میں میری مہمان نوازی کیجئے۔ (عیون الاخبار 285 ج 2)
خطائے پدر!
ایک حاکم نے تیل فروخت کرنے والے ایک لڑکے سے دریافت کیا کہ ایک ’’من‘‘ تلوں سے کتنا تیل نکلتا ہے؟ اس نے جواب دیا: دس سیر، پھر پوچھا: دس سیر تلوں میں؟ اس نے جواب دیا: ڈھائی سیر، حاکم نے پھر پوچھا: ڈھائی سیر تلوں میں؟ اس نے جواب دیا: ڈھائی پاؤ۔
بہت سے سوالوں کے بعد آخر میں اس سے کہا کہ دین کے بارے میں بھی کچھ واقفیت ہے؟ وہ بولا: میں دین کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہوں، حاکم ناراض ہوا اور حکم دے دیا کہ اس کو قید خانے میں بند کردو۔
اس نے قید خانے میں جانے سے پہلے حاکم سے کہا کہ میرے ابا جان کو بھی قید خانے میں بند کردو، کیونکہ اس نے دنیاوی کاروبار تو مجھے سکھا دیا، لیکن دین سے مجھے بے خبر رکھا، چنانچہ دونوں کو قید خانے میں بند کردیا گیا۔