وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں پرسوں اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لوں گا۔ ممبران کا جمہوری حق ہے کہ وہ اپنی رائے دیں وہ کھل کر اپنی رائے دیں میں ان کی رائے کا احترام کروں گا، مگر کسی کو این آراو نہیں دوں گا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی اور یہ آئینی ذمہ داری تھی۔ کیا آئین چوری کرنے رشوت دینے کی اجازت دیتا ہے؟ تحریک انصاف کو جتنی سیٹیں ملنی تھیں اتنی مل گئیں۔ الیکشن کمیشن کی وجہ سے جو رکن بکے ان کو ٹریک نہیں کیا جاسکتا،سب کے سامنے تماشہ ہوا ۔ جب ملک کی لیڈر شپ رشوت دیگی تو کیا باقی لوگ ٹھیک ہوجائیں گے؟1500 بیلٹس کے اوپر کیا کوڈنگ نہیں ہوسکتی تھی؟ آج کیا ہماری جمہوریت اوپر گئی ہے یا نیچے؟
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمیں ہمیشہ آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔ اپوزیشن کا خیال تھا کہ ان کو این آر او مل جائے گا۔ حکومت مجھے سفر اور سیکیورٹی کا پیسہ دیتی ہے باقی سارے خرچے میں خود کرتا ہوں۔ ملک مشکل وقت سے گزررہا ہے مجھے خوف خدا ہے۔ اقتدار میں نہ ہونے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب تک پیسے واپس نہیں کریں گے میں نے آپ کو نہیں چھوڑنا۔ قوم چوروں کا پیسہ بچانے کے لیے نکلتی ، جب تک زندہ ہوں قانون کی بالادستی کے لیے جدوجہد جاری رکھوں گا۔ یہ لوگ ملک کے غدار ہیں ،یہ ملک تب عظیم بنے گا جب یہ چور اور ڈاکو جیلوں کےا ندر ہونگے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پی ڈی ایم کے رہنماوں کو مخاطب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اگر میرا اقتدار چلا بھی جائے تو بھی مجھے فرق نہیں پڑتا میں اپوزیشن میں بیٹھ کر کرپٹ عناصر کے خلاف آواز بلند کروںگا اور اگر میں اسمبلی سے باہر بھی چلا جاﺅں گا تو بھی کرپٹ ٹولے کے خلاف جدو جہد جاری رکھوں گا ۔انہوں نے کہا کہ میں اسمبلی سے باہر جا کر لوگوں کو کرپٹ ٹولے کے خلاف باہر نکال کر دکھاوں گا کیونکہ لوگ چوروں کے خلاف سڑکوں پر خود آتے ہیں
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ پر ہوتا تو تحریک انصاف کو اتنی ہی سیٹیں ملتیں جتنی ملنی تھیں، اپوزیشن نے اسلام آباد سے سینیٹ کی سیٹ پر پیسہ لگایا۔
وزیراعظم نے کہا کہ صاف اور شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، سب سے پہلے تو مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ کیوں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں جاکر کہا کہ خفیہ بیلٹ ہونا چاہیے، کوئی آئین اجازت دیتا ہے رشوت دینے کی؟ کوئی آئین اجازت دیتا ہے چوری کرنے کی؟
وزیراعظم نے الیکشن کمیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پھر جب آپ کو سپریم کورٹ نے موقع دیا اور کہا کہ الیکشن خفیہ کروالیں لیکن بیلٹ کی شناخت کا طریقہ رکھیں، مثال کے طور پر آج اگر ہم جاننا چاہیں کہ ہمارے جو 15، 16 لوگ بکے ہیں وہ کون ہیں تو آپ نے انہیں بھی بچالیا سیکرٹ بیلٹ کرواکے، آپ نے ہماری جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے، یہ کونسی جمہوریت ہے جہاں پیسے دے کر کوئی سینیٹر بنتا ہے۔
انہوں نے الیکشن کمیشن سے مزید استفسار کیا کہ ہماری جو نوجوان آبادی ہے ہم ان کیلئے کیا مثال قائم کررہے ہیں؟ سارے ملک کے سامنے پیسے چل رہے ہیں، ویڈیو چل رہی ہے پیسے کی، اس سے پہلے 2018 کے الیکشن میں پیسے لینے کی ویڈیو چلی، کیا آپ کو یہ نہیں پتہ کہ آپ کی ذمہ داری تھی تحقیقات کرنے کی؟ ساری ایجنسیز آپ کے نیچے ہیں، سب کے سامنے یہ تماشا ہوا، جب ایک ملک کی لیڈرشپ رشوت لے گی اور رشوت دے گی تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پٹواری اور تھانیدار ٹھیک ہوجائیں۔
انہوں نے الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ جب آپ کو سپریم کورٹ نے موقع دیا تو کیا وجہ تھی کہ آپ 1500 بیلٹ پیپرز پر کوئی بارکوڈ نہ لگاسکے؟
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ملک کی جمہوریت کو ڈی کریڈٹ کرنے کا موقع دیا، اس سے کیا ہوا، آج ہماری جمہوریت اوپر گئی یا نیچے گئی؟ آپ نے ملک کی اخلاقیات کو نقصان پہنچایا ہے، آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ کتنا پیسہ چلا ہے سینیٹ الیکشن میں، جو کروڑوں روپے خرچ کرکے سینیٹر بنے گا وہ ملک کی خدمت کرے گا؟ وہ یہ پیسہ کہاں سے ریکور کرے گا؟
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے ہمیں ایف اے ٹی ایف کے بل اور کورونا کے معاملے پر بلیک میل کیا۔ گرے لسٹ میں ہمار ا ملک پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور میں گیا۔ اگر ملک بلیک لسٹ میں چلا جاتا تو ملک پر پابندیاں لگ جاتیں۔پابندیاں لگنے سے روپیہ گرتا ہے اور مہنگائی ہوتی ہے۔ انہوں نے پیسہ دیکر ہمارے ممبران کو توڑنے کی کوشش کی۔ حفیظ شیخ کو ہرانے کا مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ کہہ سکیں کہ عمران خان کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ یہ میرے اوپر ووٹ آف کانفیڈنس کی تلوار لٹکانا چاہتے تھے۔میں ملک کا وہ شخص ہوں جس کو سب سے زیادہ شہرت ملی، میرے والدین غلام ہندوستان میں پیدا ہوئے میری نسل پہلی تو جو آزاد ملک میں پیدا ہوئی۔ ایک وقت تھا جب ہمارا صدر امریکہ جاتا تو امریکی صدر اسکا استقبال کرنے آتا، 1985 کے بعد ملک میں تباہی آئی اس کے بعد کرپشن اور الیکشن میں پیسہ چلنا شروع ہوا۔ وزیراعظم بننے کے ساتھ ہی ان کی فیکٹریاں لگنا شروع ہوجاتی تھیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ انصاف سے ملک اوپر یا نیچے آتے ہیں۔ اللہ کے نبی ؑ نے مدینہ کی ریاست کی بنیاد انصاف کی بنیاد پر رکھی تھی۔انصاف وہ ہوتا ہے جو طاقتور کو قانون کے نیچے لیکر آتا ہے۔ جیلوں میں موجود مجرم اتنی چوری نہیں کرتے جتنی چوری وزیراعظم ایک ڈیل سے کرتا ہے۔چینی اور پاپڑ والے کے نام پر پیسے اس وجہ سے باہر بھجوائے جاتے ہیں تاکہ بڑے لوگ پکڑیں نہ جائیں۔ سب غریب ملکوں کی یہی کہانی ہے۔ امریکی ادارے کے مطابق ہر سال 1 ہزار ارپ روپے غریب ملکوں سے امیر ملکوں میں منتقل ہوجاتا ہے۔ ہمارا کل بجٹ 60 ارب روپے ہے۔ قرض اتارنے کے لیے ٹیکس لگانے پڑتے ہیں جس سے مہنگائی ہوتی ہے۔ مشرف نے دباو میں آکر ان کو این آر او دیا۔ ہم سینیٹ کی سب سے بڑی پارٹی ہیں ،کل سارے پیسے ایک سیٹ کے لیے لگائے گئے۔ خواتین ممبران نے بتایا کہ کیسے پیسے کی آفرز ہوئیں دو کروڑ سے بولی شروع ہورہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک عظیم خواب کا نام تھا۔ جو کروڑوں روپے خرچ کرکے سینیٹر بنے گا کیا وہ حاتم طائی ہے؟ کرپشن معاشرہ اور لوگ ملکر ختم کرتے ہیں کرپشن قانون سے ختم نہیں ہوتی۔ جب لوگ کرپشن کرنے والوں کا بائیکاٹ کریں گے تو کرپشن ختم ہوگی۔ یہاں صحافی عدالت میں جاکر کہتے ہیں نواز شریف کو تقریر کی اجازت دی جائے۔ نواز شریف جھوٹ بول کر فرار ہوا مجرم ہے عدالت سے سزا یافتہ ہے۔ نواز شریف کا منشی بھی پیسے چوری کرکے باہر بیٹھا ہوا ہے۔
عمران خان نے کہاکہ کرپشن ختم کرنا یہ صرف میری نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ہمارا ملک ان حالات میں اس وجہ سے ہے کہ ہم نے کرپشن کو قبول کرلیا ہے۔ جو سڑک ایک ارب میں بننی ہوتی ہے وہ ڈیڑھ ارب روپے میں بنتی ہے۔زرداری سے وفاداری کے لیے یوسف رضا گیلانی نے سوئس حکومت کو خط نہیں لکھا۔ یوسف رضا گیلانی کو عدالت سوئس حکومت کو خط لکھنے کا کہتی رہی مگر انہوں نے خط نہیں لکھا اوراس پر سزا بھی ملی۔