حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ پہلے ایک عام آدمی تھے۔ پندرہ برس کی عمر میں والد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والد کی وفات پر ایک باغ اور ایک آٹا پیسنے والی چکی آپ کو ورثے میں ملی۔ والدین کی جدائی کے بعد باغبانی کا پیشہ آپ نے اختیار کیا۔ تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ آپ کو اس کا بڑا افسوس تھا، لیکن یہ ایک ایسی فطری مجبوری تھی، جس کا بظاہر کوئی علاج نہ تھا۔
ایک دن حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اپنے باغ میں درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ ادھر سے مشہور بزرگ حضرت ابراہیم قندوزیؒ کا گزر ہوا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے بزرگ کو دیکھا تو دوڑتے ہوئے پاس گئے اور حضرت ابراہیم قندوزیؒ کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔
حضرت ابراہیم قندوزیؒ ایک نوجوان کے اس جوش عقیدت سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے شفقت سے حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور چند دعائیہ کلمات کہہ کر آگے جانے لگے تو حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے حضرت ابراہیم قندوزیؒ کا دامن تھام لیا۔
حضرت ابراہیم قندوزیؒ نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا: اے نوجوان آپ کیا چاہتے ہیں؟ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے عرض کی کہ آپ چند لمحے اور میرے باغ میں قیام فرمائیں۔ کون جانتا ہے کہ یہ سعادت مجھے دوبارہ نصیب ہوتی ہے کہ نہیں۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کا لہجہ اس قدر عقیدت مندانہ تھا کہ حضرت ابراہیم قندوزیؒ سے انکار نہ ہو سکا اور آپؒ باغ میں بیٹھ گئے۔ پھر چند لمحوں بعد انگوروں سے بھرے ہوئے دو طباق لئے اور حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے حضرت ابراہیم قندوزیؒ کے سامنے رکھ دئیے۔ خود ان کے پاس دست بستہ کھڑے ہو گئے۔ اس نو عمری میں سعادت مندی اور عقیدت مندی کا بے مثال مظاہرہ دیکھ کر حضرت ابراہیم قندوزیؒ حیران تھے۔ انہوں نے چند انگور اٹھا کر کھا لئے۔
حضرت ابراہیم قندوزیؒ کے اس عمل سے حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے چہرے پر خوشی کا رنگ ابھر آیا۔ یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم قندوزیؒ نے فرمایا: معین الدین بیٹھ جاؤ۔ آپ دوزانو ہو کر بیٹھ گئے۔ فرمایا: فرزند تم نے ایک فقیر کی خوب مہمان نوازی کی ہے۔ یہ سرسبز شاداب درخت، یہ لذیذ پھل، یہ ملکیت اور جائیداد سب کچھ فنا ہو جانے والا ہے۔ آج اگر یہاں بہار کا دور ہے تو کل یہاں خزاں بھی آئے گی۔ یہی گردش روز و شب ہے اور یہی نظام قدرت بھی تیرا یہ باغ وقت کی تیز آندھیوں میں اجڑ جائے گا۔ پھر حق تعالیٰ تجھے ایک اور باغ عطا فرمائے گا، جس کے درخت قیامت تک گرم ہوائوں سے محفوظ رہیں گے۔ ان درختوں میں لگے پھلوں کا ذائقہ جو ایک بار چکھ لے گا۔ پھر وہ دنیا کی کسی نعمت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔
حضرت ابراہیم قندوزیؒ نے اپنے پیرہن میں ہاتھ ڈال کر جیب سے روٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی طرف بڑھایا اور فرمایا: وہ تیری مہمان نوازی تھی، یہ فقیر کی دعوت ہے۔
یہ فرما کر خشک روٹی کا وہ ٹکڑا حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے منہ میں ڈال دیا، پھر باغ سے نکل کر اپنی منزل کی جانب تیزی سے چل دیئے۔ حضرت ابراہیم قندوزیؒ کی دی ہوئی روٹی کا ٹکڑا اس قدر سخت اور خشک تھا کہ اس کا چبانا دشوار تھا، مگر حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے ایک بزرگ کا تحفہ سمجھ کر وہ روٹی کا ٹکڑا کھا لیا۔
اس ٹکڑے کا حلق سے نیچے اترنا ہی تھا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی دنیا ہی بدل گئی۔ آپ کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے کائنات کی ہر شے بے معنی ہے۔
بعد ازاں آپ نے سب کچھ خدا کی راہ میںلٹانے کے بعد تحصیل علم کے لیے خراساں کو خیرباد کہہ دیا اور آپ نے سمرقند بخارا کا رْخ کیا جو اس وقت علوم و فنون کے اہم مراکز تصور کیے جاتے تھے۔ یہاں پہلے آپ نے قرآن پاک حفظ کیا۔ پھر تفسیر، فقہ، حدیث اور دوسرے علوم ظاہری میں مہارت حاصل کی۔
علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ نے مرشد کامل کی تلاش میں عراق کا رخ کیا۔ اپنے زمانے کے مشہور بزرگ خواجہ عثمان ہارونیؒ کی خدمت میں آئے۔ خواجہ معین الدین چشتی اپنے مرشد کی خدمت میں تقریباً ڈھائی سال رہے اور باطنی کمالات حاصل کرتے رہے۔
(حکایات اولیائ)