رسول اقدسؐ نے فارس کے بادشاہ کسریٰ کو دعوتی خط لکھا، جو اس وقت کی سپرپاور طاقت کا سربراہ تھا۔ جب نامہ مبارک کسریٰ کو پہنچا تو اس نے نہایت تکبر سے اسے پھاڑ دیا۔ اس نے اپنے سیکریٹری کو بلوایا اور کہا کہ فوراً میرے نائب یمن کے گورنر باذان کو لکھو کہ وہ معلوم کرے کہ یہ شخص کون ہے، جس نے اتنی بڑی جرأت کی ہے کہ مجھے خط لکھا اور میرے نام سے پہلے اپنا نام لکھ دیا۔ مزید برآں دو مضبوط اور توانا آدمی بھیجو اور اسے گرفتار کرکے میرے سامنے پیش کرو۔
چنانچہ باذان نے اپنے دو نہایت ہی سمجھ دار آدمی روانہ کردیئے، جن میں سے ایک اس کا قہرمان (داروغہ) تھا اور دوسرے کا نام خرخرہ تھا۔ انہیں حکم دیا کہ وہ رسول اقدسؐ کو گرفتار کرلائیں۔ یہ دونوں یمن سے طائف پہنچے۔ یہاں ایک قریشی سے ملے۔ رسول اقدسؐ کے بارے میں پوچھا، اس نے بتایا کہ آپؐ مدینہ میں ہیں۔ طائف کے لوگوں کو جب ان کے عزائم کا علم ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے کہ چلو، مسئلہ حل ہوگیا۔ محمد کو کسریٰ نے طلب کرلیا ہے، اب وہ خود ہی ان سے نپٹ لے گا۔ قہرمان اور خرحرہ مدینہ پہنچے۔ یہ دونوں بڑے ہٹے کٹے تھے۔ لمبی لمبی مونچھی رکھی ہوئی تھیں۔ داڑھی بالکل منڈائی ہوئی تھی۔ یہ رسول اقدسؐ کے پاس پہنچے۔ آپؐ نے ان کی ہیت کذائی دیکھی تو منہ پھیرلیا۔
قہرزمان نے کہا: شہنشاہ کسریٰ کے حکم پر باذان بادشاہ نے ہمیں آپ کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ میں آپ کو لینے آیا ہوں، اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو پھر وہ شہنشاہ کسریٰ کو سفارش کرے گا کہ آپ کو کچھ نہ کہا جائے اور آپ کو کچھ عطا بھی کردے، اگر آپ نے جانے سے انکار کیا تو پھر آپ اسے خوب جانتے ہیں، وہ آپ کو اور آپ کی قوم کو تباہ و برباد کردے گا اور آپ کی بستیاں ویران کردے گا۔
جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ ان کی شکل و صورت دیکھ کر آپؐ نے شدید نفرت کا اظہار کیا اور چہرے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’تمہارا ستیاناس ہو، تمہیں داڑھی منڈانے کا حکم کس نے دیا ہے؟‘‘
انہوں نے کہا: ’’ہمیں ہمارے رب کسریٰ نے حکم دیا ہے۔‘‘
رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’مگر میرے رب تعالیٰ نے مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم دیا ہے۔‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’میرے پاس کل آنا۔‘‘
رات کو حق تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو وحی کے ذریعے بتلادیا کہ فلاں ماہ کی فلاں تاریخ کو رات کے وقت کسریٰ کے بیٹے شیرویہ نے اپنے باپ کو قتل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے۔
اگلے دن وہ دونوں پھر آئے۔ آپؐ نے ان کو وحی الٰہی کے مطابق بتا دیا کہ تمہارے شہنشاہ کو اس کے بیٹے نے منگل 10 جمادی اولیٰ 7 ہجری کی رات کو چھ گھنٹے گزرنے کے بعد قتل کرکے حکومت خود سنبھال لی ہے۔
وہ دونوں حیران رہ گئے، بے ساختہ کہنے لگے: ’’آپ کو معلوم بھی ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’میرے رب نے تمہارے رب کو ہلاک کر ڈالا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’ہم ابھی بادشاہ باذان کو لکھے دیتے ہیں۔‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں، اس کو میری طرف سے یہ خبر بھی پہنچا دو اور لکھ دو کہ میرے دین اور میری حکومت وہان تک پہنچے کر رہے گی جہاں تک کسریٰ پہنچ چکا ہے، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اس جگہ رکے گی، جہاں سے آگے اونٹ اور گھوڑے کے قدم جاہی نہیں سکتے (وہاں سے آگے سمندر ہے)۔ تم دونوں اس سے یہ بھی کہہ دینا: ’’اگر تم مسلمان ہوجاؤ تو جو کچھ تمہارے زیر اقتدار ہے وہ سب میں تمہارے ہی پاس رہنے دوں گا اور تمہیں تمہاری قوم کا بادشاہ بنا دوں گا۔‘‘
(تاریخ الطبری 3/143، والبدایہ والنہایہ: 6/485)