عشرت صاحب نے کہا: ’’اگر سب لوگ گوشت خوری ترک کردیں اور ساگ سبزی کھانے لگیں تو آلو سو روپے کلو ہو جائے گا، کیوں کہ پچانوے فیصد لوگ مانساہاری (گوشت خور) ہیں، پھر بتائیے کہ سب کے جیون (زندگی) کی گاڑی کیسے چلے گی اور لوگ کس طرح سے اپنا پالن پوسن (گزر بسر) کریں گے؟‘‘ان کی بات سن کر میری عقل کی پرتیں کھل گئیں اور میری سمجھ میں آگیا کہ جو بات وہ کہہ رہے ہیں، صحیح کہہ رہے ہیں۔ یہی میرا ٹرننگ پوائنٹ تھا، جب میں نے عقیدت سے نہیں عقل سے سوچا۔ میں نے اسی دم سب کے ساتھ مل کر کھانے کے لیے حامی بھر لی اور اتنا ہی نہیں، بلکہ جب کھانے پر بیٹھی تو عشرت صاحب کے ٹفن میں سے مرغ کی ٹانگ بھی حلق سے اتر گئی۔عشرت صاحب اس کے بعد وقتاً فوقتاً مجھے اسلام کے بارے میں بتاتے رہے اور میں ان کی باتوں کو بڑے غور سے سنتی اور اپنی عقل کا استعمال کرتی تو عقل بھی انہیں کی باتوں کی تصدیق کرتی۔ دھیرے دھیرے اسلام کے لئے میری دلچسپی میں اضافہ ہونے لگا۔
ایک دن عشرت صاحب نے دنیا کے نقشے کو سامنے رکھ کر بتایا کہ مکہ دنیا کا مرکز ہے، جہاں سے اسلام کی روشنی برابر دنیا کے کونے کونے میں پہنچتی ہے، جس طرح کمرے کے سینٹر میں بلب روشن ہو تو اس کی روشنی کمرے کے ہر جانب برابر جاتی ہے، اس کے برعکس جین دھرم صرف ہندوستان میں محصور ہے اور اس کا پھیلائو ممکن نہیں۔ یہ بات میرے دل کو چھو گئی۔ پھر میرا ضمیر دن بہ دن مجھے کچوکے لگانے لگاکہ میں غلطی پر ہوں اور اسلام ہی اصل سچائی ہے۔ جب بھی عشرت صاحب مجھے کوئی بات بتاتے تووہ اس سلسلے میں عقلی اور منطقی استدلال بھی پیش کرتے اور یہی وہ بات تھی، جس کے آگے مجھے ڈھیر ہونا پڑا۔
دوسری بات یہ تھی کہ خود عشرت صاحب کا رویہ اپنے اسٹاف کے ساتھ بڑا نرم تھا۔ وہ سب کے ساتھ مساویانہ سلوک روا رکھتے اور ہر ایک کے ساتھ بڑی شفقت ومحبت کا معاملہ کرتے۔ ان کا اخلاق بڑا کریمانہ تھا۔ انہوں نے جین دھرم میں مہاویر سوامی کی پرتیما (مورتی) کی جو تشریح کی، میں اس سے بہت متاثر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا خود کا پہناواننگ (عریانیت) تھا اور وہ دوسرے لوگوں کو کپڑے پہننے کے لئے کہہ رہے ہیں۔ یہ قول و عمل کا تضاد میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ ان سب وجوہات کی بناء پر میرا دل اسلام کی طرف مائل ہونے لگا۔چودہ مارچ 1995ء میری زندگی کا وہ مبارک دن تھا، جب میں مشرف بہ اسلام ہوئی۔ عشرت صاحب کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر جمعہ کو آفس بند کرکے سورئہ کہف کی تلاوت کرتے تھے۔ میرے اندر تجسس ابھرا کہ وہ اتنے اہتمام سے کیا پڑھتے ہیں؟ جب میں نے ان کو سورئہ کہف کی تلاوت کرتے سنا تو میرے دل کی اندرونی کیفیت کچھ عجیب سی ہوگئی۔ ایک طرح کی بیداری پیدا ہوگئی۔
پھر عشرت صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم آگ کا ایندھن بننے سے کب بچوگی؟ میں نے از خود رفتگی میں کہا کہ بہت جلد۔ انہوں نے کہا کہ کیا خبر، یہ سانس جو تم لے رہی ہو، آخری ہو؟ پھر اچانک میں بڑے جوش میں بولی کہ ابھی اور اسی وقت! پھر عشرت صاحب نے مجھے کلمہ پڑھایا اور میں مسلمان ہوگئی۔ میں نے اسی دم یہ دعا کی ’’خدایا! جس طرح تو نے مجھے آگ سے بچایا ہے، اسی طرح میری ماں اور میرے بھائی کو بھی بچالے‘‘۔ حق تعالیٰ کے یہاں میری یہ دعا بھی قبول ہوگئی۔ شروع میں تو میری ماں اور بھائی دونوں نے میری مخالفت کی۔ میرا بھائی تو عشرت صاحب کا جانی دشمن ہوگیا، لیکن جب میں نے ان کو خود اسلام کے بارے میں کچھ معلومات دیں اور بتایا کہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا ہے، پھر ان کے سامنے نماز وغیرہ پڑھنے لگی تو وہ بہت متاثر ہوئے اور دونوں نے ہی خدا کے فضل سے اسلام قبول کرلیا۔
میری ماں نے میری شادی عشرت صاحب سے کردی، جن کی بیوی کا کینسر کے مرض میں شادی کے تین چار سال بعد انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے تین بچے تھے۔ ان بچوں سے مجھے جو پیار ملا اور کہیں نہیں ملا۔ میرا ان سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ میں اس پر رب کا جتنا شکر ادا کرتی ہوں کم ہے۔ میری ابھی ایک بچی ہے، جس کا نام ناز ہے اور میں اسے اسلام کی اشاعت کے لئے تیار کر رہی ہوں، کیونکہ جب میں نے اسلام قبول کرلیاتو اب ایک بہت بڑی ذمہ داری کو قبول کیا ہے اور اپنے اوپر اسلام کی تبلیغ کو فرض کرلیا ہے۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ لوگ حلقہ اسلام میں زیادہ سے زیادہ آئیں۔ ہم اپنے اخلاق سے،اپنے کردار سے قرآن کا مکمل نمونہ بنیں تاکہ لوگوں میں اسلام کی سچائی جاگزیں ہو۔ میں اسلام سے متعلق مختلف کتابوں کا بھی مطالعہ کرتی رہتی ہوں۔ قرآن مجید کو میں نے سمجھ کر پڑھا اور مجھے لگا کہ حقوق العباد پر اسلام کا بہت زور ہے اور یہی حقوق العباد اسلام کا دائرہ وسیع کرنے میں بھی بہت معین ہے۔ ہمیں اپنی دعوت میں خوش اخلاقی کو مقدم رکھنا چاہیے۔ ا ب تک خدا کے فضل سے میری ماں اوربھائی کے علاوہ تین اور لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ یہ میمونہ خاتون(سنینا کپور) محمدیوسف (راجن کپور) اور محمد زید( ستیش کمار) ہیں۔ میری اپنی کوشش ہے اور تمام لوگوں سے استدعا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص داعی بنے اور دعوت کو جاری رکھے، اپنے بچوں کی اسلامی نہج پر تربیت کرے تاکہ وہ اسلام کے داعی بن کر ابھریں۔