فائل فوٹو
فائل فوٹو

نیپالی فوج کے افسرکا قبول اسلام

اسی دوران دسہرہ کا تہوار آگیا اور میرے گھر والے مجھ پر زور ڈالنے لگے کہ میں بھی ان کے تہوار میں شرکت کروں، میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں کسی صورت میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتا، اِدھر بیوی رو رہی تھی تو ادھر بچے رو رہے تھے، بلکہ سب نے کھانا تک نہیں کھایا، لیکن میں اپنی بات پر اٹل رہا، بالآخر تھک ہار کر سب نے دوسرے دن کھانا کھا یا۔
ہفتہ عشرہ تک میں نے دسیوں بار اہل خانہ کو اسلام کی دعوت دی، اپنی محبت کا واسطہ دیا اور علیحدگی کی صورت میں معاشرتی بگاڑ اور بچوں کے مستقبل کی بربادی سے ڈرایا، لیکن میری بیوی اپنے بھائیوں اور باپ کے بہکاوے میں آکر دین میں میرا ساتھ نہ دے سکی، جب مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ میرے خلاف یہ لوگ سازشیں کررہے ہیں، کیونکہ دو سال قبل مجھے اس کا تجربہ ہو چکا تھا کہ چند شرارت پسندوں نے میری بیوی کی بیوقوفی سے مجھے جسمانی اذیت پہنچانی چاہی تھی، لیکن اسی وقت میرا ایک دیرینہ دوست پہنچ گیا، جس سے میں بال بال بچ گیا، اس بار بھی اس طرح کے آثار دکھائی دینے لگے تو میں ایک دن خفیہ طور پر استعمال کے کپڑے لیے، گھر سے نکل پڑا اور چند کلو میٹر دور میرے ایک دوست کا گھر ہے، جہاں ایک ہفتہ چھپا رہا، اس دوران ٹکٹ کا انتظام کیا اور دو بارہ کویت آگیا۔

واقعہ یہ ہے کہ میرے سسرال والوں نے ہی سارا معاملہ خراب کیا ہے، جن کی میرے اہل خانہ کو پوری پشت پناہی حاصل ہے۔ مجھے اس بات کا کوئی افسوس نہیں کہ میں اپنے اہل خانہ اور اولاد سے بچھڑ گیا ہوں، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ وہ اسلام سے محروم رہ گئے ہیں۔ اخیر میں قارئین سے میری درخواست ہے کہ وہ حق تعالیٰ سے میرے اہل خانہ کی ہدایت کے لیے دعا کریں۔