سپریم کورٹ نے کراچی رجسٹری میں کیس کی سماعت کے دوران کمشنر کراچی پر ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ پیش کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم کمشنر کو ہٹانے جارہے ہیں ، بڑی معذرت کےساتھ ایساکہامگرہمارے سا منے ایسی رپورٹ ہیں کیاکریں، کمشنرکراچی ،ڈی جی ایس بی سی اے کوپتا نہیں بعدمیں کتنے نیب کیس بنیں گے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی رائل پارک کیس کی سماعت ہوئی جس دوران عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کمشنر کراچی سامنے آئیں،چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے جو کام کرنے کو کہا تھا کیا ہوا؟ عدالت نے کمشنر کراچی کی جانب سے ڈپٹی کمشنرز کی رپورٹ پیش کرنے پر برہمی کا اظہار کیا ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کمشنر کراچی کو فارغ کریں، ہمارے سامنے ڈپٹی کمشنرز کی رپورٹ کیسے پیش کی؟ ہم نے سب احکامات آپ کو خود دیے تھے ۔
کمشنر کراچی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہاکی گروَانڈ اور کھیل کے میدان بنا دیے ہیں ، ، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا آرڈر کیا تھا اور یہ کیا بتا رہے ہیں،ایڈووکیٹ جنرل سلمان طالب الدین نے کہا کہ کمشنر کراچی کام کر رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انہیں ڈپٹی کمشنرز کے بجائے اپنی رپورٹ پیش کرنی چاہیے تھی،کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ کڈنی پارک ہو یا سب جگہ کام، اپنی نگرانی میں کروا رہا ہوں۔عدالت نے وکیل مکین ہل پارک نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ 4ماہ کی مہلت دے دی جائے۔چیف جسٹس گلزار احمدنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک فیملی نے 3 گھروں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ عدالت نے ہل پارک تجاوزات کیس میں مکینوں کی فریقین بننے کی درخواست مستردکر دی ۔
چیف جسٹس گلزار نے سوال کیا کہ باغ ابن قاسم کی کیا صورتحال ہے؟کمشنر کراچی نے جواب دیاکہ باغ ابن قاسم میں سبزہ اگانے کا کام جاری ہے، چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ بتائیں شاہراہ قائدین نالے پر عمارت کا کیا ہوا؟ کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ ایس بی سی سے نے بتایا کہ نالے پر عمارت نہیں ہے، چیف جسٹس نے کمشنر کراچی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایس بی سی اے کو چھوڑیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو براہ راست حکم کا مطلب آپ کو جواب دینا ہے، پورے بلڈنگ ہی نالے پر کھڑی ہے، ایس بی سی اے والے خود ملے ہوئے ہیں،اچانک سے ایک پلاٹ نکلتا ہے اور کثیر المنزلہ عمارت بن جاتی ہے،ڈی جی ایس بی سی اے کہاں ہیں ؟۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ڈی جی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے سامنے کیوں غلط بیانی کر رہے ہیں ، ڈی جی ایس بی سی اے نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سٹرک کی ری الاٹمنٹ سے پلاٹ نکلا،چیف جسٹس نے ڈی جی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا پھر بیچ دیں گے، کل سپریم کورٹ کی عمارت پر دعویٰ کردیں گے، سپریم کورٹ کا لے آوَٹ پلان لے آئیں گے تو ہم کیا کریں گے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ کل سپریم کورٹ کی عمارت کسی کو دے دیں گے ،آپ لوگ کل وزیراعلیٰ ہاوَس پر کسی کو عمارت بنوا دیں گے،ہمارے سامنے ایسی غلط باتیں مت کریں، سب معلوم ہے، آپ ریکارڈ ڈیجیٹلائزکیوں نہیں کرتے؟دنیا کو معلوم ہے ایس بی سی اے کون چلا رہا ہے ،ایک مولوی کو ڈی جی ایس بی سی اے بنا کر لا کھڑا کردیا،آپکا خیال ہے کہ آپ ڈی جی ایس بی سی اے ہیں،ہر ماہ ایس بی سی اے میں اربوں روپے جمع ہوتا ہے،سب رجسٹرار آفس، ایس بی سی اے اور ریونیو میں زیادہ پیسہ بنایا جاتا ہے،سب معلوم ہے کیا ہو رہا ہے،ان اداروں کا حال برا ہے ،آپ کچھ اعتراض کریں گے تو آپ کو ہٹا دیا جائے گا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت میں کہا کہ شاہراہ قائدین پر نسلہ ٹاور سے متعلق بلڈر کو بلا کر پوچھا جائے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہاں ایس بی سی سے بلڈر ہی کی تو ترجمانی کر رہا ہے،50 سالہ پرانے علاقے میں اچانک کیسے ایک پلاٹ نکل آتا ہے؟ کیسے اچانک لیز کردی جاتی ہے ؟ابھی نسلہ ٹاور کی لیز منسوخ کردیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ڈی جی ایس بی اے کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ آپ عمارت گرانے کا کام شروع کریں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟سندھی مسلم سوسائٹی میں پوری عمارت کو روڈ پر بنایاگیا ہے، سوسائٹی میں اس نام کا کوئی پلاٹ نہیں ہے ، سوسائٹی حکومت پاکستان کی عمارت ہے ،آپ نے زمین کو مختیار کار کے حوالے کردیا ہے ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فیروز آباد میں مختیار کار کا نام پہلی بار سنا ہے ،مختیار کار کا اختیار شہر میں ہے اس کو صرف کمشنر دیکھ سکتا ہے ،بورڈ آف روینیو یا مختار کار کراچی کی وسط سے باہر کام کر سکتے ہیں،سندھی مسلم سوسائٹی کی زمین مختیار کار الاٹ نہیں کر سکتا ۔ چیف جسٹس نے ایڈو کیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آنکھیں کھولیں یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ سرکاری وکیل کا کہناتھا کہ ہمیں تھوڑا سا وقت دیں پلاٹ کے متعلق رپورٹ پیش کر دیں گے ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو کیوں وقت دیں ابھی سب سامنے آ جائےگا ، یہ سارے کاغذات جعلی ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمشنرکراچی صاحب بتائیں آپ کاکیاگریڈہے؟ کمشنر کراچی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں 21 گریڈکاافسرہوں،چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم کمشنر کو ہٹانے جارہے ہیں ، بڑی معذرت کےساتھ ایساکہامگرہمارے سا منے ایسی رپورٹ ہیں کیاکریں،چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں نے کراچی کوکیاسمجھ رکھاہے؟اب آنکھیں کھولنے کاوقت آگیا،کراچی کیپیٹل سٹی رہاہے،کیابنادیااس شہرکو؟ ایڈووکیٹ جنرل صاحب،ایسی بات کررہےہیں جیسے کراچی کونہیں جانتے، افسوس ہے انہیں کراچی کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں، کوئی قابل افسرہوتاتوایک منٹ میں ہسٹری بتادیتا۔
کمشنر کراچی ،ڈی جی ایس بی سی اے کوپتا نہیں بعدمیں کتنے نیب کیس بنیں گے۔ چیف جسٹس نے کمشنر پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کا کچھ نہیں پتا یہ صرف ربر اسٹیمپ ہیں، ہمارے لئے مشکلات پیدا کررہے ہیں تو لوگوں کے لیے کتنی مشکلات پیدا کرتے ہوں گے،ہم نے میٹنگ کا کہا تھا کچھ نہیں کیا شہر کے لیے نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سے رپورٹ مانگی تھی،کچھ ذکرہی نہیں،چی سی ایم صاحب نے توکہہ دیاسب اچھاہے، وزیراعلیٰ سندھ سے کہاتھابتائیں شہرکی بہتری کیسے کرسکتے ہیں۔