امت رپورٹ:
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے حکومت کا دوغلا پن پہلی بار دستاویزی شکل میں بے نقاب ہوا ہے۔ واضح رہے کہ دس برس سے قوم کی بیٹی امریکی جیل میں ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے اسے اٹھارہ برس گزر چکے ہیں۔
پیپلز پارٹی، نون لیگ اور پی ٹی آئی، ہر دور کے حکمرانوں نے ڈاکٹرعافیہ کو واپس لانے کے جھوٹے وعدے کئے۔ تاہم عمران خان نے جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ہر صورت واپس لانے کے انتخابی نعرے لگائے تھے تو خود عافیہ کی فیملی بھی یہ یقین کر بیٹھی تھی کہ اقتدار ملنے پر کپتان ضرور اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ لیکن کپتان نے قوم کی بیٹی کو تو کیا واپس لانا تھا۔ الٹا عافیہ اور اہل خانہ کے مابین ٹیلی فون یا بذریعہ خط جو نصف ملاقات ہوجایا کرتی تھی، وہ بھی جاتی رہی۔ تازہ انکشاف یہ ہوا ہے کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں عافیہ صدیقی نے اپنی والدہ اور بچوں کو جتنے خط لکھے۔ وہ خاموشی سے دبالئے گئے۔ یہ بھید اس وقت کھلا، جب عدالتی احکامات پر وزارت خارجہ نے ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانے سے متعلق حکومتی کوششوں کے دستاویزی شواہد پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ڈاکٹر عافیہ خود ہی اپنے گھر والوں سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتی۔
اس سارے معاملے سے آگاہ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پچھلے تین برس سے حکومت یہ ڈبل گیم کھیل رہی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ سے کہا جاتا ہے کہ اس کی والدہ اور بچے اب اس سے کوئی رابطہ نہیں رکھنا چاہتے۔ جبکہ فیملی کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ عافیہ اپنے گھر والوں سے بات کرنے سے انکاری ہے۔ یعنی دونوں طرف مس گائیڈ کیا جارہا ہے۔ شاید حکومت کا یہ ڈبل گیم کامیابی سے چلتا رہتا۔ تاہم جب عدالت نے حکومت کو پابند کیا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی سے متعلق سرکاری کوششوں کے دستاویزی ثبوت پیش کرے تو پول کھل گئی کہ کس طرح عافیہ اور اس کے گھر والوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔
ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور اس سے اہل خانہ کی کمیونیکیشن سے متعلق پٹیشن دو ہزار پندرہ میں عافیہ کی بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی تھی۔ تاہم وزارت خارجہ تاخیری حربے استعمال کرتی رہی۔ اس وقت یہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نورالحق قریشی سن رہے تھے۔ دو ہزار سولہ میں جسٹس نورالحق قریشی نے انتہائی سخت آرڈر دیتے ہوئے حکومت کو پابند کیا کہ وہ ہر ہفتے اپنی کوششوں اور پیش رفت کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کرے تاکہ ایک برس کے اندر ڈاکٹرعافیہ واپس پاکستان آجائے۔ تاہم اس کے باوجود اگلی تین سے چار پیشیوں کے موقع پر وزارت خارجہ کا کوئی نمائندہ عدالت میں حاضر نہیں ہوا۔ ان ہی تاخیری حربوں کے دوران جسٹس نورالحق قریشی ریٹائر ہوگئے۔ اس کے بعد کیس کی ایک دو سماعتیں ہوئیں۔ پھر یہ کیس التوا کا شکار ہوگیا۔ قریباً چار برس کے وقفے کے بعد رواں برس جنوری میں اس کیس کی دوبارہ سماعتیں شروع ہوئیں۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جانب سے اپنے وکیل ساجد قریشی ایڈووکیٹ کے توسط سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر اس درخواست کی سماعت اب جسٹس عامر فاروق پر مشتمل سنگل بنچ کر رہا ہے۔
میڈیا میں رپورٹ نہ ہونے والی عدالتی کارروائی سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ حکومتی نمائندے سے جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالت میں ایسے دستاویزی شواہد پیش کئے جائیں۔ جس سے اندازہ ہوسکے کہ حکومت واقعی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے اعلیٰ سطح پر کوششیں کر رہی ہے۔ پہلے تو دو تین ماہ تک یہ دستاویزی ثبوت فراہم کرنے کے لئے حکومتی نمائندہ وقت مانگتا رہا۔ آخر کار اٹھارہ مارچ کو ہونے والی سماعت کے موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس معاملے میں وزارت خارجہ کا تفصیلی جواب عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ جس میں ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانے سے متعلق سرکاری کوششوں کے دستاویزی شواہد بھی شامل ہیں۔ لیکن ان دستاویزات کو سیکرٹ قرار دیا گیا۔ تاہم ڈاکٹر فوزیہ کے وکیل کی استدعا پر کہ جب تک وہ ان سرکاری دستاویزات کو دیکھ نہیں لیتے، اپنے دلائل کیسے دے سکیں گے۔ عدالت نے وکیل کو یہ دستاویزات دیکھنے کی اجازت دے دی۔ ذرائع نے بتایا کہ اس سرکاری رپورٹ میں زیادہ تر وہی باتیں لکھی ہوئی ہیں، جس کا پرچار حکومت میڈیا میں کرتی رہی ہے۔ مثلاً لکھا ہے کہ قونصلر سطح پر عافیہ سے کئی بار ملاقات کی جاچکی ہے۔ عافیہ رحم کی اپیل پر دستخط نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی اپنے گھر والوں سے رابطے کی خواہش مند ہے۔
عافیہ کو کئی بار کہا گیا کہ اپنے گھر والوں سے فون پر بات کرلیں، یا کوئی خط لکھ دیں۔ لیکن عافیہ نے انکار کر دیا۔ ذرائع کے بقول لیکن حکومت کے اس دعوے کو اسی فائل کے ساتھ منسلک قونصلر جنرل ابرار ہاشمی کے ایک نوٹ نے بے نقاب کر دیا۔ جو شاید غلطی سے وزارت خارجہ نے ان دستاویزات کے ساتھ منسلک کر دیا تھا۔ اس مختصر نوٹ نے حکومتی دعوے کی پول کھول دی۔ کیونکہ قونصلر جنرل ابرار ہاشمی نے اپنے مختصر نوٹ میں لکھا ہوا ہے کہ ’’میں نے ٹیکساس میں امریکی فیڈرل میڈیکل سینٹر کارس ویل فورٹ ورتھ کے تین وزٹ کئے، جہاں ڈاکٹر عافیہ قید ہیں۔ اور یہ کہ عافیہ نے مجھے اپنی والدہ کے لئے ایک اور لیٹر لکھ کر دیا۔ جس کی کاپی میں منسلک کر رہا ہوں۔ عافیہ کی جانب سے اپنی والدہ اور بچوں کو لکھے گئے تمام خطوط میں نے دفتر خارجہ کو بھیج دیئے ہیں‘‘۔
ذرائع کے مطابق قونصلر جنرل ابرار ہاشمی کے اس مختصر نوٹ سے سرکاری دستاویزات میں ظاہر کیا جانے والا یہ دعویٰ خود بخود غلط ثابت ہوگیا کہ عافیہ اپنے گھر والوں سے کسی قسم کا رابطہ یا واسطہ نہیں رکھنا چاہتی اور یہ کہ اصرار پر بھی اس نے اپنی والدہ کے لئے خط لکھنے یا ان سے فون پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔ اب اس کیس کی سماعت بارہ اپریل کو ہونی ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ کے وکیل اپنے آرگومنٹس میں یہ اہم نقطہ اٹھائیں گے کہ کس طرح حکومت عافیہ اور ان کے اہل خانہ، دونوں طرف کے لوگوں کو مس گائیڈ کر رہی ہے۔ اور یہ کہ والدہ کے نام لکھے جانے والے عافیہ کے خطوط اس کی فیملی کی امانت ہیں۔ اسے سیکرٹ دستاویز قرار دے کر حکومت کیسے چھپا سکتی ہے؟ فیملی ذرائع کے بقول ابرار ہاشمی سے قبل خاتون قونصلر جنرل عائشہ فاروقی کو عافیہ نے اپنی والدہ کے نام جو خط دیا تھا، وہ خاتون قونصلر جنرل نے فیملی کے ساتھ شیئر کیا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے عافیہ کے خطوط چھپائے جارہے ہیں۔ جبکہ عافیہ کے ساتھ گھر والوں کا ٹیلی فونک رابطہ بھی نہیں کرایا جارہا ہے۔
اس سے قبل عافیہ صدیقی کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے ایک بیان میں کہا تھا ’’اگرچہ مجھے بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ قوم کی بیٹی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ہماری بہن، بیٹی اور اپنے بچوں کی ماں بھی ہیں۔ لیکن اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں میں سے کسی کو اس کی پرواہ نہیں۔ صرف خالی نعروں اور خیالی الفاظ سے ہمیں بہلایا جارہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب خوف اور بے یقینی کی کیفیت غالب ہے، اور عافیہ کی زندگی خطرے میں ہے۔ عافیہ کی وطن واپسی کے لئے یہ ایک بہترین وقت ہے، جب کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں قیدیوں کا تبادلہ کیا جارہا ہے۔ وفاق کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ اخلاص کے ساتھ اس معاملے کو دیکھے۔
مذاکرات اور قیدیوں کے تبادلے کے متعدد راستے حکومت کو اچھی طرح معلوم ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت ان راستوں پر چلنے کے لئے تیار نہیں۔ حتیٰ کہ حکومت نے اس حوالے سے دو ہزار سولہ میں عدالت کی جانب سے دیئے جانے والے احکامات کو بھی نظر انداز کر دیا۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ عافیہ رحم کی اپیل پر دستخط سے انکاری ہے۔ حالانکہ وہ پہلے ہی اس پر دستخط کر چکی ہے۔ اگر دفتر خارجہ مہربانی کرکے عائشہ فاروقی اور ابرار ہاشمی کے قونصلر جنرل وزٹ کی مکمل رپورٹس شیئر کرے تو دستخط شدہ فارم کی ایک کاپی بھی ان کے پاس ہونی چاہیے۔ جس میں وزیراعظم عمران خان سے کی گئی اپیل شامل ہے‘‘۔