اقبال اعوان
ڈیفنس کے قریبی علاقے قیوم آباد میں واقع کوئٹہ ملت ماما ہوٹل کی الائچی والی دودھ پتی چائے اور ماش کی فرائی دال دور دور تک مشہور ہے۔ یہ ہوٹل رات گئے چند گھنٹے کیلئے صفائی ستھرائی کیلئے بند کیا جاتا ہے۔ یہاں چائے اور قہوہ کے علاوہ دوپہر اور رات کا کھانا بھی ملتا ہے۔ ہوٹل پر شام سے رات گئے تک گاہکوں کا رش رہتا ہے۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ہوٹل مالک ہدایت اللہ کا کہنا ہے کہ رمضان کے دنوں میں سحری و افطاری کیلئے مختلف ذائقہ دار کھانے تیار کرتے ہیں۔ یہاں روزانہ دو من دودھ کی چائے بنتی ہے۔ جبکہ ادرک اور پودینے والا قہوہ فرمائش پر بناتے ہیں۔
قیوم آباد کا ہوٹل دودھ پتی چائے اور ماش کی فرائی دال کے حوالے سے کافی مشہور ہے۔ ’’امت‘‘ کو ہوٹل کے مالک ہدایت اللہ نے بتایا کہ ’’میں 25 سال قبل کوئٹہ پشین سے یہاں آیا تھا۔ کوئٹہ میں ہوٹل چلانا آسان ہے، لیکن یہاں مشکل ہے۔ کوشش کرتے رہے کہ کوئٹہ وال کے لوگوں کیلیے چائے اورکھانے کے ذائقے وہی رکھیں، جو ان کو کوئٹہ میں ملتے ہیں۔ دراصل کوئٹہ والے ذائقہ پسند نہ آنے پر چائے اور کھانے ایک بار کھا کر واپس پلٹ کر نہیں آتے۔ ہمارے ہوٹل کے اوپر یا اطراف میں عملے کے رہنے کی جگہ ہوتی ہے کہ کرائے کے مکان لوگ کم دیتے ہیں۔ ہوٹل میں رہ کر اپنا کھانا خود بناتے ہیں اور ہوٹل کے کھانے کم کھاتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’25 سال قبل ہوٹل کھولا تو 5 کلو دودھ کی چائے بنتی تھی۔ آہستہ آہستہ کاریگروں کی جگہ خود چائے بنانے پر توجہ دی۔ اس لیے اب دو من دودھ نکل جاتا ہے۔ دود ھ پتی کے اندر الائچی ڈالنے سے ذائقہ بڑھ جاتا ہے اور دودھ کاڑھتے ہوئے، ہلکا جلنے کا ٹچ مارتے ہیں جس سے خوشبو کچھ تبدیل ہو جاتی ہے۔ اگر دودھ کے اندر شکر، پتی ڈال کر چائے بنائی جائے تو کڑک چائے بنانے کیلئے اسے زیادہ نہیں کاڑھتے۔ بلکہ بار بار چولہے سے اتار کر فرائی پین یا کیٹل کو ہلاتے ہیں۔ دو سال قبل تک لوگ کوئلے کی چائے مانگتے تھے۔ اب کوئلہ 60 روپے کلو ہے، جبکہ لوگوں سے دودھ پتی چائے کے ریٹ 40 روپے سے دو روپے زیادہ مانگو تو دوبارہ نہیں آتے۔ کوئٹہ وال ہوٹل کے اندر گیس کے چولہوں کے اوپر لوہے کی وزنی جالی رکھتے ہیں اور پھر برتن کو اوپر رکھ کر چائے بناتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ افطاری کے بعد خاص طور پر لوگ عشا کی نماز اور تراویح پڑھ کر زیادہ چائے پینے آتے ہیں۔ قہوہ بھی فرمائشی طور پر بنواتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر کھانے میں بیف کا بھنا سالن، سبزی اور دال ہوتی ہے۔ جبکہ ماش کی دال کی وائٹ کڑاہی بناتے ہیں، جس کی قیمت عام دال کی پلیٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ کوئٹہ وال ہوٹل کے کم کاریگر ہی بناتے ہیں۔ ان کے ہوٹل میں سیف اللہ نامی کاریگر ماش کی دال بناتا ہے۔ اس نے کوئٹہ کے ہوٹل پر کئی سال کام کیا۔ اب 20 سال سے یہاں ہے۔ قیوم آباد، ڈیفنس اور اطراف کے علاقے کے لوگ ماش کی دال پراٹھے کے ساتھ ناشتے میں مانگتے ہیں۔ پراٹھے کے ساتھ انڈا اور چنا کم مانگا جاتا ہے۔
کاریگر سیف اللہ کا کہنا تھا کہ ماش کی دال کو وائٹ کڑاہی کی طرح فرائی کر کے بنایا جائے تو چکن یا مٹن کڑائی سے اچھی بنتی ہے۔ یہاں پر وہ دیگر کھانے بھی بناتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ماش کی دال اور پراٹھے لے کر جاتے ہیں۔ رمضان کے اندر سحری کی تیاری کے دوران دو بڑی لوہے کی کڑاہیوں میں ماش دال بنا کر رکھ لیتے ہیں۔ کیونکہ سحری میں یہ زیادہ چلتی ہے۔ اس طرح چائے بھی زیادہ بنا کر رکھتے ہیںکہ سحری میں لوگ جلدی کرتے ہیں اور بعض اوقات ہوٹل والے خود سحری سے محروم رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ آخری وقت میں رش ہوتا ہے اور چائے، دال، پراٹھے پارسل کرانے والوں کا رش بڑھ جاتا ہے۔
افطاری سے قبل ہوٹل کھول کر اپنی افطاری تیار کر کے چائے اور کھانے کا بندوبست کرتے ہیں۔
بار والے رحمت اللہ کا کہنا تھا کہ رمضان کے مہینے میں زیادہ رش، سحری بند ہونے سے چند منٹ قبل ہوتا ہے۔ رمضان میں کام کم ہوتا ہے اور کورونا کی وجہ سے کاروبار پر مزید اثر پڑا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ رمضان کے دوران لوگوں کو مفت افطاری کرانے کا بندوبست بھی کراتے ہیں۔