ایک تائیوانی شہری نے سوشل میڈیا پر اپنی دکھ بھری داستان بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کی کمپنی نے بیت الخلا میں دیر تک بیٹھنے پراس کی تنخواہ کاٹ لی ہے جو سراسر ظلم ہے۔
اس پر لوگوں کی بڑی تعداد نے اس سے اظہارِ ہمدردی کیا لیکن بعض لوگوں نے پورا قصہ تفصیل سے معلوم کرنا چاہا، جس کے جواب میں ’’مسٹر اے‘‘ نے بتایا کہ اس نے تائیوان کی ایک کمپنی میں 22 دن کام کیا، اس کا معاوضہ 160 یوآن فی گھنٹہ طے کیا گیا تھا جبکہ اس نے وہاں مجموعی طورپر195 گھنٹے ملازمت کی۔ تاہم ’’مسٹر اے‘‘ نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اس نے ان 22 دنوں میں دفتری اوقات کے 49.5 گھنٹے بیت الخلا میں گزارے۔
تنخواہ دیتے وقت کمپنی نے 4400 یوآن کاٹ لیے اور کہا کہ قواعد و ضوابط کی رُو سے وہاں پر کوئی بھی ملازم روزانہ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ ہی بیت الخلاء میں گزار سکتا ہے۔ اس لحاظ سے ’’مسٹر اے‘‘ نے اپنی مدتِ ملازمت کے دوران مقررہ حد سے پورے 27.5 گھنٹے زیادہ گزارے، جن کی کٹوتی کردی گئی ہے۔
’’مسٹر اے‘‘ نے اسے سراسر ظلم و زیادتی قرار دیتے ہوئے دیگر سوشل میڈیا صارفین سے پوچھا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے۔جواب میں اکثر لوگوں نے کمپنی کی جانب سے تنخواہ کٹوتی کا اقدام بالکل درست اور جائز قرار دیا۔
زیادہ تر لوگوں کا یہی کہنا تھا کہ اگر ملازمین اپنا زیادہ وقت بیت الخلا میں گزارنے لگیں تو پھر کام کون کرے گا؟ایک سوشل میڈیا صارف نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ اگر کسی شخص کا زیادہ وقت دفتر کے بجائے بیت الخلاء میں گزر رہا ہے تو اسے اپنی کمپنی کو برا بھلا کہنے کے بجائے اسپتال جا کر اپنا علاج کروانا چاہیے۔
البتہ، سوشل میڈیا صارفین کی ایک اچھی تعداد ایسی بھی تھی جنہوں نے’’مسٹر اے‘‘ سے ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ اسے تائیوان میں انسانی حقوق اور محنت کشوں سے متعلق سرکاری ادارے میں اپنی کمپنی کے خلاف رپورٹ درج کروانی چاہیے۔