حکومت جب نظر بندی کا حکم جاری کرتی ہے تو ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار محدود ہو جاتا ہے ۔فائل فوٹو
حکومت جب نظر بندی کا حکم جاری کرتی ہے تو ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار محدود ہو جاتا ہے ۔فائل فوٹو

’’سعد رضوی کو سزائے موت والی کوٹھڑی میں رکھا گیا ہے‘‘

نجم الحسن عارف:
صوبائی حکومت نے اپنی حکمت عملی کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد حسین رضوی کو بیس اپریل سے دو روز قبل ہی کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا تھا۔ سعد رضوی کو سزائے موت کے قیدیوں والی کال کوٹھڑی میں بند کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ان کے والد مرحوم علامہ خادم حسین رضوی کو بھی حکومت نے سزائے موت کے قیدیوں کی کال کوٹھڑی میں رکھا تھا۔ کوٹ لکھپت جیل کے ذرائع کے مطابق انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار کیے گئے سعد رضوی کو صرف ان کے اہل خانہ ہی مل سکتے ہیں۔ دوسری جانب لاہور میں جامع مسجد رحمۃ اللعالمین کے باہر تحریک لبیک کا دھرنا پورے جوش و خروش سے جاری ہے۔

تحریک لبیک کے دھرنے میں موجود رہنمائوں نے اورنج لائن ٹرین کے صلاح الدین اسٹیشن اور یتیم خانہ چوک اور ان دونوں اسٹیشنوں سے متصل سڑکوں، جگہوں اور چوراہوں پر رضاکاروں کی ٹولیاں تعینات کر رکھی ہیں۔ ان رضاکاروں کو مختلف شفٹوں میں پہرہ داری پر تعینات کرنے کیلئے باقاعدہ گروپ بنائے گئے ہیں۔ نمائندہ امت نے دیکھا کہ ان پہرے دار رضاکاروں کے پاس بظاہر چھوٹے موٹے سے ڈنڈے ہیں۔ تاہم ان رضاکاروں کا جوش و جذبہ بڑا توانا ہے۔ نمائندہ امت نے جائے دھرنا کا وزٹ کیا تو جو مناظر دیکھے، ان میں پیر کے روز سحری سے قبل علامہ خادم حسین رضوی مرحوم کی رہائش گاہ سے متصل پٹرول پمپ پر مرہم پٹی کی جا رہی تھی۔ یہ زخمی اتوار کی صبح پولیس کی طرف سے اچانک کی جانے والی فائرنگ میں زخمی ہوئے تھے۔

سحری سے قبل معمول کے مطابق نماز عشا اور نماز تراویح بھی ادا کی گئی اور غیر معمولی معاملہ یہ تھا کہ اتوار کی صبح فائرنگ کے نتیجے میں جنم لینے والے سانحہ یتیم خانہ کے باوجود ماحول پر بڑا صبر و سکون طاری تھا۔ سحری کے وقت موجود کارکنوں کیلئے سحری میں کئی قسم کے کھانوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پلائو کباب سے مزین سپر فوڈ کے علاوہ نان حلیم اور نان چنوں کا بھی وافر مقدار میں بندوبست کیا گیا تھا۔ جبکہ لسی کا بھی انتظام تھا۔ مختلف جگہوں پر کارکنوں کی ٹولیاں اس مفت فراہم کی جانے والی اشیائے خور و نوش سے استفادہ کر رہی تھیں۔ جبکہ پہرے پر موجود کارکنان اطراف میں چوکس کھڑے تھے۔
دھرنے کے اسٹیج سے مجلس شوریٰ کے ارکان کے درمیان مشاورت کا اعلان کرتے کرتے رک کر ذمہ دار نے کہا کہ ’’ہماری مجلس شوریٰ کے ارکان باہمی مشورے کے لئے جمع ہو رہے ہیں اور انشاء اللہ ہم اپنے اعلان کے مطابق 20 اپریل کی رات بارہ بجے کے فوری بعد تحفظ ناموس رسالت کے مطالبہ کے ساتھ اسلام آباد کی طرف روانہ ہوں گے‘‘۔ اس دوران کارکنوں کو مرکزی دھرنے کی جگہ پر پہنچنے کے اعلانات بھی کیے جاتے رہے۔

سحری کے وقت اسٹیج پرلائوڈ اسپیکر سے نعتیں اور لبیک لبیک یا رسول اللہ کے ترانے سنائے جاتے رہے۔ یوں پچھلے ایک ہفتہ سے زائد ہو گیا ہے کہ ملتان روڈ پر مرکزی دھرنے کی جگہ سے مسلسل لبیک لبیک کے نعرے گونج رہے ہیں۔ کارکن اس نعرے پر پہلے سے بھی زیادہ پرجوش اور والہانہ انداز میں چلے جاتے ہیں۔ پیر کے روز بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے لئے موجود اسلامی حکم ’’جس نے نبیؐ کی شان میں توہین کی، اس کا علاج قتل ہے‘‘ کے نعرے بھی مرکزی دھرنے میں مسلسل لگائے جاتے رہے۔

ادھر شہر میں اتوار کے روز پولیس کی فائرنگ سے شہید ہونے والے شہریوں کے حوالے سے بالعموم غم و افسوس پایا جاتا ہے۔ اہالیان لاہور میں اس واقعے کو سانحہ یتیم خانہ کے طور پر یاد کیا جا رہا ہے۔ نیز تحریک لبیک کے کارکنوں کے ساتھ پیش آنے والے ان واقعات کے بارے میں میڈیا کی گنگ زبانوں کے بعد عوامی سطح پر تحریک لبیک کے حق میں لہر بھی مضبوطی سے ابھر رہی ہے۔ میڈیا کی تحریک لبیک کے خلاف پالیسی اور حکومتی آشیرباد کے باعث اختیار کردہ پالیسی سے شہر میں افواہوں کا بازار گرم ہو رہا ہے۔ جس سے خدشہ ہے کہ ان افواہوں کی وجہ سے شہر میں بد امنی کا ماحول پیدا ہو سکتا ہے۔ اسی صورت حال میں گزشتہ روز (پیر کو) لاہور میں تقریباً مکمل ہڑتال رہی۔ شہر کی تمام اہم اور بڑی مارکیٹیں اور بازار بند رہے۔ البتہ گلی محلوں کی سطح پر ملی جلی فضا رہی۔

حکومت کے مقامی ذرائع منگل (آج) اور بدھ کے دنوں کو انتہائی حساس قرار دے رہے ہیں۔ اسی کے پیش نظر ہو سکتا ہے کہ ایک حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی طرف سے ہاتھوں سے لکھی ہوئی چند سطور کو جاری کیا گیا کہ احتجاج ختم کر دیا جائے۔ لیکن مرکزی دھرنے میں موجود ذمہ داران اور منظر عام پر موجود قیادت کی جانب سے اس جیل سے لکھے گئے خط کے حق میں تائیدی بیان نہیں دیا گیا۔ بلکہ اس طرح کی خبروں کو جعلی اور جھوٹی خبریں قرار دیا جا رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے جن رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات کی بات چیت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے کسی کا بھی موبائل فون آن نہیں۔ ان کے فون وہ مسلسل بند ہیں اورکوئی رہنما بھی رابطے میں نہیں ہے۔ ایسے میں یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کے علاوہ مزید قائدین کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ لیکن ان کا اعلان نہیں کیا جا رہا۔ پیر کے روز مرکزی دھرنے کی جگہ ملتان روڈ کے اردگرد خوف اور سراسیمگی کی فضا پہلے سے زیادہ تھی۔

جمعہ کی رات تراویح کے وقت اقبال ٹائون مون مارکیٹ میں بندو خان تک پولیس کی زبردست شیلنگ اور اتوار کے روز صبح آٹھ بجے چوک یتیم خانہ پر صبح سویرے وحشیانہ فائرنگ کے بعد مسلسل خوف اور تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خصوصاً منگل کو (آج) جب حکومت کے آخری معاہدے میں حکومت کو تحریک لبیک کی طرف سے دی گئی دو ماہ کی مہلت بھی پوری ہو جائے گی۔ تحریک لبیک کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ حکومت کا ہر حربہ اور جھوٹ ناکام ہو رہا ہے۔ ایسے میں اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت اور پولیس مل کر 20 اپریل کی رات تک کوئی بڑی واردات نہ کر ڈالے۔ اس سلسلے میں سرکاری املاک اور سرکاری گاڑیوں کے حوالے سے کوئی ڈرامہ بھی رچایا جا سکتا ہے۔

ان سطورکے لکھے جانے تک تحریک لبیک نے حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی تصدیق نہیں کی ۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پیراورمنگل کی رات تحریک لبیک کے کارکنوں اور حامیوں کی گرفتاریوں کے حوالے سے سب سے اہم رات ہو سکتی ہے۔