فائل فوٹو
فائل فوٹو

مہر مبارک کی نقل بغداد سے ترکی لائی گئی

عارف انجم:
قسط نمبر 12
چھ ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد نبی اکرم ﷺ نے جب مختلف حکمرانوں کو خطوط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ عجم کے حکمران مہر کے بغیر خطوط کو تسلیم نہیں کرتے یا اہمیت نہیں دیتے۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے ایک مہر بنوائی۔ جس پر ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کندہ کیے گئے یعنی کھودے گئے تھے۔ یہ مہر ایک چاندی کی انگوٹھی کی صورت میں تھی۔ نبی پاک ﷺ کے تمام مکتوبات پر اس انگوٹھی سے مہر ثبت کی جاتی۔
معارف الحدیث میں ہے: حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ شاہِ فارس کسریٰ اور شاہِ روم قیصر اور شاہِ حبشہ نجاشی کو خطوط بھیجیں (اور ان کو اسلام کی دعوت دیں) تو آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یہ حکمران لوگ مہر کے بغیر خطوط کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس پر حضور ﷺ نے مہر بنوائی جو چاندی کی انگوٹھی تھی۔ اس میں نقش تھا ’’محمد رسول اللہ‘‘ (صحیح مسلم)۔ اور اسی حدیث کی صحیح بخاری کی روایت میں یہ تفصیل بھی ہے کہ مہر میں تین سطریں تھیں۔ ایک سطر میں ’’محمد‘‘، ایک سطر میں ’’رسول‘‘ اور ایک سطر میں ’’اللہ‘‘ کے الفاظ لکھے گئے تھے۔
اگرچہ حضرت انسؓ سے روایت کی گئی احادیث میں تین سطروں کا ذکر ہے اور یہ واضح نہیں کہ پہلی سطر میں کیا اور دوسری اور تیسری سطر میں کیا لکھا تھا۔ تاہم بعض دیگر روایات کے مطابق پہلی سطر میں اللہ، دوسری سطر میں رسول اور تیسری میں محمد کے پاک الفاظ درج تھے۔ مہر مبارک کی جو تصویر عام ہے اور مختلف مکتوبات پر جو مہر مبارک دکھائی دیتی ہے۔ اس میں سطروں کی یہی ترتیب ہے۔
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5487 ہے: ’’طلحہ بن یحییٰ انصاری نے یونس سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ میں چاندی کی ایک انگوٹھی پہنی۔ اس میں حبش کا نگینہ تھا۔ آپ اس کے نگینے کو ہتھیلی کی طرف رکھا کرتے تھے‘‘۔
حبش یا حبشہ کا لفظ عربی میں ابی سینیا کی سرزمین کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جسے اب ایتھوپیا کہا جاتا ہے۔ یہ وہی ملک ہے جہاں مسلمانوں نے پہلی ہجرت کی تھی۔ جب کہ ’’حبش کے نگینے‘‘ سے مراد عقیق کا پتھر لی جاتی ہے۔ حبش کے نگینے یا حبشی نگینے سے ایک مراد ’’سیاہ عقیق‘‘ کی بھی لی جاتی ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد یہ انگوٹھی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے سپردکردی گئی۔ جب حضرت ابو بکر الصدیقؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو حضرت عائشہؓ نے یہ انگوٹھی ان کے حوالے کردی۔ حضرت ابو بکرؓ کی وفات کے بعد یہ انگوٹھی حضرت عمر فاروقؓ کو ملی۔ حضرت عمرؓ نے انتقال سے پیشتر یہ مہر مبارک ام المومنین حضرت حفصہؓ کے پاس رکھوادی اورہدایت کی کہ جو خلیفہ منتخب ہو۔ اس کے سپرد کر دی جائے۔ چنانچہ جب حضرت عثمان بن عفانؓ خلیفہ بنے تو یہ انگوٹھی ان تک پہنچی۔
حضرت عثمان بن عفانؓ کے دور میں یہ مہر مبارک یا انگوٹھی مدینہ کے ایک کنویں میں گر گئی۔ جس کا نام ’’بئر اریس‘‘ ہے۔ تاہم اسے بئر النبی بھی کہا جاتا ہے اور انگوٹھی گرنے کے بعد اسے بئر خاتم بھی کہتے ہیں۔ عربی میں خاتم کا ایک مطلب ’’انگوٹھی‘‘ بھی ہے۔
یہ کنواں مسجد قباء کے مغرب میں اس وقت کے صدر دروازے سے 42 میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ ابن نجار کے مطابق کنویں کی گہرائی 6 اعشاریہ 3 میٹر اور چوڑائی 2 اعشاریہ 2 میٹر تھی۔ جبکہ پانی کی سطح 1 اعشاریہ 3 میٹر تھی۔ بعد کے ادوار میں کھدائی کر کے اس کی گہرائی 8 اعشاریہ 5 میٹر کر دی گئی۔
انگوٹھی یا مہر مبارک گرنے کے حوالے سے دو روایات ہیں۔ اول یہ کہ یہ حضرت عثمانؓ سے کنویں میں گری۔ دوم یہ کہ یہ حضرت معیقیبؓ کے ہاتھ سے گری۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کو یہ انگوٹھی پکڑا رہے تھے کہ یہ کنویں میں گر گئی۔
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5477 ہے: ’نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی۔ پھر آپ نے اس کو پھینک دیا۔ اس کے بعد آپ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی۔ اس میں یہ نقش کرایا ’’محمد رسول اللہ‘‘ اور فرمایا ’’کوئی شخص میری اس انگوٹھی کے نقش کے مطابق نقش نہ بنوائے‘‘۔ جب آپ اس انگوٹھی کو پہنتے تو انگوٹھی کے نگینے (موٹے چوڑے حصے) کو ہتھیلی کے اندر کی طرف کرلیا کرتے تھے اور یہی وہ انگوٹھی تھی۔ جو معیقیب ( کے ہاتھ) سے چاہ اریس میں گر گئی تھی‘‘۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3674 میں ہے کہ ایک دن رسول اکرم ﷺ اس کنویں پر اپنی ٹانگیں لٹکائے تشریف فرما تھے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر ابن خطابؓ بھی وہاں آگئے اور رسول اکرم کے دائیں بائیں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد حضرت عثمان بن عفانؓ بھی وہاں پہنچ گئے اور رسول اکرم ﷺ کے قریب جگہ نہ پاکر تینوں کے سامنے بیٹھ گئے۔ رسول اکرمؓ نے ان تینوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پانے کی بشارت دی۔
روایت کے مطابق برسوں بعد حضرت عثمان بن عفانؓ کی خلافت کا زمانہ تھا۔ جب وہ اس کنویں پر اسی طرح بیٹھے تھے۔ جس طرح رسول اکرم ﷺ اور اپنے دونوں ساتھیوں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ساتھ تھے کہ انگوٹھی ان کے ہاتھ سے نکل کر کنویں میں جا گری۔ حضرت عثمانؓ کے حکم پر 3 دن تک کنویں کے اندر انگوٹھی کو تلاش کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود انگوٹھی نہیں ملی۔ آپؓ نے اس کنویں کا سارا پانی نکلواکر اس کی ریت کو اچھی طرح چھنوایا مگر وہ نہیں ملی۔ انگوٹھی مبارک کے اس طرح گم ہوجانے پر آپؐ کو سخت ملال ہوا۔ بعد میں بھی اس انگوٹھی کی تلاش کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ مگر وہ کسی کو نہیں ملی۔
اس کا حوالہ صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5879 میں ملتا ہے۔ ’’کہا مجھ سے محمد بن عبداللہ انصاری نے، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے، ان سے ثمامہ بن عبداللہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی انگوٹھی وفات تک آپ کے ہاتھ میں رہی۔ آپ کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں رہی۔ پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا تو وہ اریس کے کنویں پر ایک مرتبہ بیٹھے۔ بیان کیا کہ پھر انگوٹھی نکالی اور اسے الٹنے پلٹنے لگے کہ اتنے میں وہ (کنویں میں) گر گئی۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہم تین دن تک اسے ڈھونڈتے رہے اور کنویں کا سارا پانی بھی کھینچ ڈالا۔ لیکن وہ انگوٹھی نہیں ملی‘‘۔
مورخین کا کہنا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے بعد ازاں اسی شکل کی انگوٹھی بنوائی تھی۔ ان کی بنائی گئی انگوٹھی اموی خلفا سے ہوتی ہوئی عباسی خلفا تک پہنچی۔ عثمانیوں نے 1534ء میں بغداد فتح کرلیا۔ جہاں سے دیگر تبرکات کے علاوہ یہ مہر مبارک بھی انہیں ملی۔ اس طرح یہ مہر قسطنطنیہ لائی گئی۔ جہاں یہ توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے۔ حضرت عثمانؓ کی بنوائی گئی مہر مبارک میں سرخ عقیق استعمال ہوا ہے۔
جدہ سے شائع ہونے والے اردو روزنامے سے وابستہ عبدالستار خان کے مطابق سنہ1317ء میں بئر اریس کی تہہ تک اترنے کیلئے سیڑھیاں تعمیر کی گئیں۔ لیکن یہ زینہ کس نے تعمیر کرایا اس پر مورخین کا اختلاف ہے۔ عثمانی دور حکومت میں اس کنویں پر گنبد تعمیر کرایا گیا اور ایک دوسرا گنبد اس کے جنوبی سمت میں تعمیر کرایا گیا۔ دونوں گنبد شکستہ حالت میں تھے۔ جب 1964ء میں مسجد قباء کا چوک تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا تب مدینہ منورہ میونسپلٹی نے انہیں منہدم کرا دیا۔ بعد ازاں مسجد قباء چوک بنانے کے لئے زمین کو ہموار کیا گیا اور ایسا کرنے سے وہ کنواں بھی دفن ہوگیا۔ اب اس کے آثار بھی مفقود ہیں۔
مہر مبارک کے حوالے سے کئی مسلمانوں میں دو نظریات پائے جاتے ہیں۔ جن کا درست ہونا ضروری نہیں۔ ایک یہ کہ عقیق پہننے والا مشکلات سے محفوظ رہتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ مہر مبارک کے گم ہونے کے ساتھ خیر و برکات میں بہت فرق آگیا اور امت میں نہ ختم ہونے والے فتنوں کا آغاز ہوگیا۔ حتیٰ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خود بھی شہید ہوگئے۔

سیرت کی کئی کتابوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک مہر کا ذکر ملتا ہے۔ یہ مہر آپ ﷺ مختلف حکمرانوں کو بھیجے گئے خطوط پر لگاتے تھے۔ مہر مبارک پتھر سے بنائی گئی تھی۔ جو چاندی کی انگوٹھی میں جڑا گیا تھا۔ نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد یہ مہر حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس تھی۔ جنہوں نے اسے پہلے خلیفہ راشد حضرت ابو بکر صدیقؓ کے سپرد کر دیا۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کے انتقال کے بعد مہر مبارک حضرت عمر فاروقؓ کے پاس آگئی۔ حضرت عمر فاروقؓ سے ہوتے ہوئے یہ تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان ابن عفانؓ تک پہنچی۔
روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلفائے راشدین بھی اس مہر کو مختلف دستاویزات پر ثبت کرتے تھے۔
حضرت عثمانؓ سے یہ مہر مبارک مدینہ کے ایک کنویں ’’بئر اریس‘‘ میں گر گئی۔ کئی دنوں تک تلاش کے باوجود مہر مبارک نہ ملی۔ حضرت عثمان کے حکم پر کنویں کو خالی کیا گیا۔ اس کی ریت چھانی گئی۔ لیکن مہر مبارک نہ مل سکی۔ آخر کار حضرت عثمان نے اس جیسی ایک اور مہر بنوائی۔ اصل مہر مبارک کی طرح اس نئی مہر پر بھی ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔
ترک حکام کے مطابق حضرت عثمانؓ کی تیار کرائی گئی یہ مہر توپ کاپی میوزیم میں موجود ہے۔ یہ سرخ عقیق سے بنائی گئی ہے۔ خلفائے راشدین کے بعد یہ مہر مبارک اموی اور عباسی خلفا کی تحویل میں رہی۔ 16 ویں صدی عیسوی میں جب بغداد سلطنت عثمانیہ کے تحت آیا تو یہ مہر قسطنطنیہ لائی گئی اور تب سے وہیں ہے۔
توپ کاپی میوزیم میں محفوظ مہر مبارک ایک سینٹی میٹر کی ہے۔ اس پر تحریر ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ خط کوفی میں ہیں۔