فائل فوٹو
فائل فوٹو

موئے مبارک توپ کاپی میوزیم کیلیے باعث منزلت

عارف انجم:
قسط نمبر 13
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس تبرکات میں سب سے زیادہ تعداد موئے مبارک کی ہے۔ جو دنیا کے مختلف خطوں میں موجود ہیں۔ آقائے دو جہاںؐ جب بھی حلق کراتے۔ موئے مبارک زمین پر نہ گرتے۔ بلکہ صحابہ کرامؓ موئے مبارک کو انتہائی عقیدت کے ساتھ وصول کر لیتے۔ موئے مبارک وصول کرنے والوں میں سب سے اہم نام حضرت ابو طلحہؓ کا ہے۔ احادیث میں موجود ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے حکم پر حضرت ابو طلحہؓ موئے مبارک لوگوں میں تقسیم کر دیتے۔
صحابہ کرامؓ کے بعد یہ موئے مبارک نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی فرماتے ہیں کہ حجۃ الوداع میں حضور ﷺ نے اپنے سر کے موئے مبارک اتار کر تقسیم فرمائے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بال سر پر ہزاروں ہوتے ہیں۔ وہ کتنوں کے پاس پہنچے ہوں گے اور ایک ایک نے آپس میں تقسیم کیے ہوں گے اور کتنی حفاظت سے رکھے ہوں گے۔ اس لیے اگر کسی جگہ موئے مبارک کا پتہ چلے، تو اس کی تکذیب نہیں کرنا چاہیے۔ (ملفوظات حکیم الامت، صفحات 139- 140، جلد 11)۔
صحیح مسلم میں ہے کہ ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے منیٰ آمد کے بعد جمرہ کے پاس تشریف لاکر رمی کی۔ پھر منیٰ میں اپنی اقامت گاہ تشریف لائے اور قربانی کی۔ پھر حلاق سے فرمایا: لو اور اپنے سر مبارک کی دائیں جانب اشارہ فرمایا۔ پھر (اسی طرح) بائیں جانب۔ پھر وہ موئے مبارک (حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے) لوگوں کو دینے لگے‘‘۔ (صحیح مسلم بشرح النووی، صفحہ 45، جلد 9، کتاب الحج، باب بیان أن السنۃ یوم النحر أن یرمی الخ)۔
اسی طرح حضرت جُعشم الخیر رضی اللہ عنہ نے جب حدیبیہ میں درخت کے نیچے رسول اکرم ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی تو آپؐ نے ان کو اپنا کرتا مبارک، نعلینِ مبارک اور اپنے کچھ موئے مبارک عنایت فرمائے تھے۔
موئے مبارک سے فیض اور برکات سمیٹنا صحابہؓ سے ثابت ہے۔ اس حوالے سے حضرت خالد بن ولیدؓ کا واقعہ زیادہ مشہور ہے۔ مجمع الزوائد میں ہے، حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی جنگِ یرموک کے موقع پر گم ہوگئی۔ اُنہوں نے لوگوں سے فرمایا، اسے تلاش کرو! لوگوں نے تلاش کرنے پر نہیں پائی۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے دوبارہ تلاش کرنے کا حکم فرمایا۔ اب کی بار لوگوں نے پالی۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ ایک بوسیدہ ٹوپی ہے۔ اس کے باوجود جس اہتمام سے خالد بن ولید نے اسے تلاش کیا اور کرایا۔ اس پر لوگوں کو تعجب ہوا۔ ان کے تعجب و حیرت کو ختم کرنے کے لیے حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، رسول اللہ ﷺ نے عمرہ ادا فرمایا۔ اس کے بعد اپنے سرِ مبارک کا حلق کرایا، تو لوگ آپ کے سر مبارک کی مختلف جانبوں کے موئے مبارک کی طرف سبقت کی غرض سے بڑھے۔ پس میں نے آپؐ کے سر مبارک کے سامنے کی جانب کے بالوں کے لیے ان سب سے سبقت حاصل کرلی۔ پھر میں نے وہ موئے مبارک اس ٹوپی میں رکھ دیئے۔ اس ٹوپی کے ساتھ جس جنگ میں شریک ہوا۔ اس میں مجھے کامیابی ہی ملی۔
موئے مبارک سے مریضوں کے فیض پانے کی روایات بھی ملتی ہیں۔ جن کا پہلے بھی انہی صفحات پر ذکر ہو چکا ہے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس رسول اللہ ﷺ کے موئے مبارک محفوظ تھے۔ کسی کو نظر بد لگتی، یا کوئی بیمار ہوتا، تو لوگ پانی ام المومنین کے پاس بھیجتے۔ موئے مبارک اس میں ڈال دیئے جاتے۔ لوگ وہ پانی استعمال کرتے، تو ان کی برکت سے شفا مل جاتی۔
موئے مبارک کا نسل در نسل منتقل ہونا بھی ثابت ہے۔ صحیح بخاری میں ہے: ’’حضرت محمد ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے، کہ میں نے عبیدہ (سلمانی) سے کہا، ہمارے پاس بنی اکرم ﷺ کے چند موئے مبارک ہیں۔ جو ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، یا کہا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے خاندان کی جانب سے حاصل ہوئے ہیں۔ عبیدہ سلمانی نے کہا کہ میرے پاس آپ ﷺ کا ایک موئے مبارک ہونا مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ پسند ہوتا‘‘۔ (صحیح بخاری، صفحہ 29، جلد اول، کتاب الوضوئ، باب الماء الذی یغسل بہ شعرُ الانسان)۔
امام احمد بن حنبلؒ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے تقریباً ڈیڑھ سو برس بعد 164 ہجری میں پیدا ہوئے اور 241 میں انتقال فرمایا۔ امام حنبلؒ نے موئے مبارک اپنے کرتے میں سی رکھے تھے۔ خلق القرآن کے مسئلے میں حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے پر انہیں اذیتیں دی گئیں۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے موئے مبارک میں سے چند موئے مبارک مجھے حاصل ہوئے تھے۔ جو میرے کُرتے کی آستین میں تھے۔ اسحاق بن ابراہیم میرے پاس آکر کہنے لگا، یہ بندھی ہوئی چیز کیا ہے؟ میں نے کہا رسول اللہ ﷺ کے چند موئے مبارک ہیں۔ خلیفہ کے آدمیوں میں سے ایک میرا کُرتا پھاڑنے کے لیے لپکا، تو معتصم نے کہا، اس کو مت پھاڑو۔ پس کرتا اتار لیاگیا۔ میرے گمان میں موئے مبارک کی برکت کی وجہ سے کرتا پھاڑے جانے سے محفوظ رہا۔
ترک مصنف اسماعیل حقی بروصوی اپنی کتاب ’’کعبہ و انسان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ دمشق کے حاکم نورالدین زنگی کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناخن مبارک اور موئے مبارک تھے۔ انتقال سے پہلے انہوں نے وصیت کی کہ قبر میں اتارنے کے بعد موئے مبارک ان کی آنکھوں پر اور ناخن مبارک ہونٹوں پر رکھ دیئے جائیں۔ ایسا ہی کیا گیا۔ اسماعیل حقی کے مطابق مقدس تبرکات کی بدولت بعد میں نورالدین زنگی کا مقبرہ زیارت گاہ میں تبدیل ہو گیا۔ جہاں پر آکر لوگ دعائیں مانگتے۔
دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے موئے مبارک انتہائی مقدس ہیں۔ 1964ء میں مقبوضہ کشمیر کی درگار حضرت بل سے موئے مبارک کی چوری کا واقعہ پیش آیا۔ جس پر پورے کشمیر میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ لوگوں نے املاک کو آگ لگا دی۔ کشمیر کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے مختلف شہروں میں بھی احتجاج ہوا۔ مغربی بنگال میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے۔ یہ احتجاج اتنا شدید تھا کہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بھی اس پر خبر شائع کی۔ اخبار کا کہنا تھا کہ ہنگامے اس وقت تک ختم نہیں ہوں گے۔ جب تک کہ موئے مبارک واپس نہیں لائے جاتے۔ بعد میں ایسا ہی ہوا۔ بھارتی انٹیلی جنس نے پورا زور لگا کر کچھ ہی دن میں موئے مبارک تلاش کر لیے۔ مسلمانوں کی ایک ایکشن کمیٹی نے ان کے اصلی ہونے کی تصدیق کی۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

ترکی کے توپ کاپی میوزیم میں موجود موئے مبارک صدیوں سے یہاں محفوظ ہیں۔ لاکھوں کروڑوں عقیدت مند ان کی زیارت کرتے ہیں اور برکتیں سمیٹتے ہیں۔ توپ کاپی محل سے باہر بھی موئے مبارک مختلف مساجد اور دیگر مقامات پر موجود ہیں۔ ترکی میں سلاطین کے زمانے سے موئے مبارک کو محفوظ رکھنے کی ایک روایت چلی آرہی ہے۔ موئے مبارک کو شیشے کی گول ٹیوبز میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ توپ کاپی محل سے باہر جہاں جہاں موئے مبارک موجود ہیں۔ وہاں یہ ٹیوبز دونوں طرف سے موم کے ساتھ سیل کی گئی ہیں۔ جب کہ توپ کاپی میوزیم میں موجود ٹیوبز کے دونوں سروں پر سونے سے بنے کور ہیں۔ جن پر ہیرے جوہرات جڑے ہیں۔
انتہائی عقیدت و احترم اور حفاظت کے پیش نظر ترکی میں ہر جگہ (محل کے اندر یا باہر) موئے مبارک کی حامل بوتل کو کپڑے کی چالیس تہوں میں لیپٹا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ کپڑا موئے مبارک سمیت مخصوص صندوق میں رکھا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ صندوق چاندی کا بنا ہوتا ہے۔ جہاں جہاں موئے مبارک مساجد میں رکھے گئے ہیں۔ وہاں اس صندوق کو منبر کے آخری درجے پر رکھ کر سبز کپڑے سے ڈھانپا جاتا ہے۔ صندوق کو صرف اہم مذہبی ایام یا راتوں کو عقیدت مندوں کے لیے کھول کر انہیں موئے مبارک کی زیارت کرائی جاتی ہے۔ اس اہتمام بالخصوص موئے مبارک کی زیارت کے لیے مقدس ایام کے انتظار کو ترک عقیدت کا جزلازم سمجھتے ہیں۔
توپ کاپی میوزیم کے نائب صدر حلمی ایدین کے مطابق سلطنت عثمانیہ کے دور میں کئی سرکاری عہدیداروں کے پاس موئے مبارک تھے۔ انہوں نے موئے مبارک کے لیے اپنے اپنے محلوں میں ایک الگ کمرہ مختص کر رکھا تھا۔ اس کمرے میں باجماعت نماز بھی ادا کی جاتی تھی۔ مساجد کی طرح ہی یہاں پر موجود موئے مبارک کی زیارت کے لیے لوگوں کو مقدس ایام یا راتوں کا انتظار کرنا پڑتا۔ ترک موئے مبارک کی ہمہ وقت نمائش کو بے ادبی تصور کرتے ہیں۔
جو موئے مبارک توپ کاپی میوزیم میں ہیں۔ ان کی تعظیم کے لیے سلطنت عثمانیہ میں ہر سلطان نے اپنے پیشروؤں پر بازی لے جانے کی کوشش کی۔ موئے مبارک کی حامل ٹیوبز کو غلاف کعبہ میں لپیٹ کر رکھا۔ یہ سلاطین موئے مبارک کو ہر جگہ اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور ان سے فیض اور برکات سمیٹتے۔ عثمانی سلطنت میں خواتین کو بھی اہم مقام حاصل تھا۔ نہ صرف سلطان کی اہلیہ کا ایک مقام ہوتا تھا۔ بلکہ سلطان کی والدہ کے لیے ’’والدہ سلطان‘‘ کا منصب موجود تھا۔ ان بااثر خواتین میں سے بیشتر موئے مبارک کے لیے بے پناہ عقیدت رکھتی تھیں۔ سلطان سمیت شاہی شخصیات کو موئے مبارک اپنے ساتھ رکھنے کا اختیار تو تھا۔ تاہم ان کے انتقال کے بعد سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا جاتا کہ موئے مبارک واپس خرقہ سعادت دیرایسی میں پہنچ جائیں۔
سلطنت عثمانیہ کے آخری بااختیار سلطان عبدالحمید نے نوعمری کے زمانے سے ایک موئے مبارک کو اپنے ساتھ رکھنا شروع کیا تھا۔ جو طویل عرصہ ان کے پاس رہا۔