نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی نے یہ اعجاز عطا کیا تھا کہ آپؐ جب سخت زمین بالخصوص پتھر پر قدم مبارک رکھتے تو وہ پتھر نرم ہو جاتا۔ آقائے دو جہاںؐ کے قدموں کے نشان بعض پتھروں پر آج بھی محفوظ ہیں۔ قدم مبارک کے سب سے معروف نقش مقبوضہ بیت المقدس میں قبۃ الصخرہ (انگریزی میں ڈوم آف دی راک) کے نیچے موجود چٹان پر ہیں۔ یہ نقش مبارک اس وقت بنے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج پر گئے۔
لیکن نبی پاک ﷺ کے قدم مبارک کا یہ واحد نقش نہیں۔ بیت المقدس کے علاوہ مصر اور ترکی میں بھی قدم مبارک کے نقش موجود ہیں۔ قبۃ الصخرہ کے بعد مشہور ترین نقش مبارک وہ ہے۔ جو قاہرہ میں توپ کاپی میوزیم میں ہے۔ یہ نقش قدم مبارک طرابلس سے ترک جنگی کمانڈر احمد بیگ لائے تھے۔
قدم مبارک کا ایک تیسرا معروف نقش مصر میں مملوک سلطان، سلطان سیف الدین قایتبائی کے مزار میں موجود ہے۔ مذکورہ نقش مبارک کی ایک نقل ترک سلطان احمد اول نے تیار کرائی تھی۔ اس نقل کے پیچھے ایک دلچسپ واقعہ ہے۔
خلافت عثمانیوں کو منتقل ہونے کے تقریباً 85 برس بعد سلطان احمد اول سلطنت عثمانیہ کے سلطان اور مسلمانوں کے خلیفہ بنے۔ انہوں نے مملوک سلطان سیف الدین قایتبائی کے مزار پر موجود قدم مبارک کے نقش کو قسطنطنیہ (استنبول) منتقل کرا دیا۔ قدم مبارک کا یہ نقش سیف الدین قایتبائی مکہ مکرمہ سے لائے تھے اور انہوں نے اسے اپنے مزار میں رکھنے کی وصیت کی تھی۔ سیف الدین قایتبائی کا مقصد یہ تھا کہ قدم مبارک کے نقش کی بدولت زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے مرقد پر آئیں گے۔ جب سلطان احمد اول نے نقش قسطنطنیہ منتقل کیا تو پہلے کچھ عرصہ اسے رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت ایوب انصاریؓ کے مزار مبارک پر رکھا گیا۔ جو استنبول میں ہی ہے۔ کچھ عرصے بعد سلطان احمد اول نے نقش مبارک کو قسطنطنیہ کی سلطان محمد مسجد منتقل کر دیا۔ جو نیلی مسجد کے نام سے مشہور ہے۔ نیلی مسجد سلطان احمد اول نے ہی تعمیر کرائی تھی۔
ترک مورخین کے مطابق نقش مبارک کی منتقلی کے بعد ایک دن سلطان احمد اول نے خواب میں دیکھا کہ تمام انبیا علیہم السلام انصاف کی عدالت میں جمع ہیں۔ جس کی سربراہی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کر رہے ہیں۔ اس عدالت میں سیف الدین قایتبائی فریاد کرتے ہیں کہ سلطان احمد ان کے مرقد سے نقش مبارک لے گئے ہیں اور یہ کہ جب یہ نقش مبارک وہاں موجود تھا تو لوگ آکر ان (قایتبائی) کے لیے بھی فاتحہ پڑھتے تھے۔ ترک روایات کے مطابق سلطان احمد اول کو خواب میں حضرت محمد ﷺ نے نقش مبارک واپس بھیجنے کا حکم دیا اور سلطان احمد اول نے اسے واپس مصر بھیج دیا۔
تاہم سلطان احمد اول کو نقش مبارک سے غیر معمولی محبت اور عقیدت تھی۔ لہذا واپسی سے قبل انہوں نے سونے کو ڈھال کر اس کی نقل بنوائی۔ مشہور ترک مورخ طیار زادہ کے مطابق قدم مبارک کی یہ نقل سلطان احمد کے مقبرے میں ان کی دیگر ذاتی اشیا کے ساتھ رکھی گئی تھی۔ سلطان احمد نے قدم مبارک کے اسی نقش کی ایک نقل لکڑی پر بھی بنوائی تھی۔ جو انہوں نے اپنے شیخ عزیز محمود خدائی کو اسکوادار بھجوائی۔
قاہرہ کے پرانے قبرستان میں سیف الدین قایتبائی کے مزار پر قدم مبارک کا نقش آج بھی موجود ہے۔
قدم مبارک کے نقوش پر مصر کے مشہور سنی عالم دین علامہ القسطلانی نے المواھب اللدنیہ میں تاریخی حوالوں سے بات کی ہے۔ المواھب اللدنیہ کی شرح علامہ زرقانی نے لکھی۔ شرح المواھب اللدنیہ میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ، جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پتھروں پر چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک کے نیچے وہ نرم ہو جاتے اور قدم مبارک کے نشان اُن پر لگ جاتے۔
شرح المواھب اللدنیہ اور دیگر کتب کے مطابق حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ، ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا حضرت ابو طالب کے ساتھ عرفہ سے تین میل دور مقام ذی المجاز میں تھے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پانی طلب کرتے ہوئے کہا ’’مجھے پیاس لگی ہے اور اس وقت میرے پاس پانی نہیں۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی سواری سے اترے اور اپنا پاؤں مبارک زمین پر مارا تو زمین سے پانی نکلنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اے چچا جان!) پی لیں‘‘۔ جب انہوں نے پانی پی لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اپنا قدمِ مبارک اسی جگہ رکھا تو وہ جگہ باہم مل گئی اور پانی کا اِخراج بند ہو گیا۔
19 ویں صدی کے عثمانی عالم دین محمد منیب اینتابی نے ’’آثار حکیم فی نقش قدم‘‘ کے عنوان سے کتاب میں بھی یہی حوالے دیئے ہیں کہ، کیسے پتھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک کے نیچے نرم ہو جاتے تھے۔
یہ حوالے دینے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ سلطان عبدالحمید اول کے طور پر دمشق سے نقش قدم سعادت کو شیخ سید محمد زیاد اپنے سر پر اٹھا کر قسططنیہ لائے۔ جہاں پر نقشِ قدمِ سعادت کا بھرپور عقیدت و احترام سے استقبال ہوا۔ سلطان نے خود ان کا استقبال کیا۔ وزیر اعظم خلیل حمید پاشا نے شیخ صاحب کے لیے ایک درگاہ تعمیر کرائی۔ یہ درگاہ استنبول کے علاقے سماطیہ میں موجود ہے اور خانقاہ قدم شریف کہلاتی ہے۔ دمشق سے لایا گیا نقش قدم سعادت سلطان عبدالحمید کے مقبرے میں رکھا گیا ہے۔
ایک اور نقش قدم سعادت سلطان احمد سوم کے مقبرے پر موجود ہے۔ عثمانی سلاطین بھی اپنی آخری آرام گاہوں کے قریب نقش قدم سعادت کو اسی غرض سے رکھتے ہیں۔ جو غرض مملوک سلطان قایتبائی کو تھی کہ نہ صرف ان کی موجودگی سے لوگ خیر و برکت حاصل کریں گے۔ بلکہ صاحب قبر کے لیے دعا بھی کرتے جائیں گے۔